سرینگر کو گزشتہ برس پولیس نے 'ملیٹنٹ فری' قرار دیا تھا Srinagar was Declared 'Militant Free' by the Police Last year ، لیکن ایک برس میں ہی شہر کے دس سے زائد نوجوان عسکریت پسندوں میں شامل ہوئے اور تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔
انتظامیہ نے اگرچہ شہر کی سیکورٹی نگرانی میں اضافہ کیا، تاہم عسکری کارروایاں بھی اتنی ہی تیز ہوئیں۔ سیکورٹی فورسز کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس شہر میں تشدد کے قریبا 30 واقعات پیش آئے جن میں 20 عسکریت پسندوں کے علاوہ 11 عام شہری ہلاک ہوئے۔ جبکہ 13 سیکورٹی فورسز بھی ان واقعات میں ہلاک ہوئے۔
گزشتہ برس کے مقابلے رواں برس سرینگر میں تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا، اگرچہ انتظامیہ نے شہر کے اندرون و اطراف میں سیکورٹی کا جھال پچھا رکھا تھا۔ سنہ 2020 میں سرینگر میں تشدد کے 18 واقعات پیش آئے جن میں پانچ عام شہری ہلاک ہوئے، جبکہ نو سیکورٹی اہلکار بھی ان واقعات میں ہلاک ہوئے۔
گزشتہ برس دسمبر میں سرینگر کے لاوے پورہ میں متنازعہ تصادم میں فوج اور پولیس نے جنوبی کشمیر کے تین عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا، لیکن ان کے لواحقین نے ان کو معصوم کہتے ہوئے سیکورٹی فورسز پر یہ الزام عائد کیا کہ انہیں فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک کیا گیا ہے۔
ان ہلاک شدگان میں پلوامہ ضلع کے اطہر مشتاق بھی شامل تھے جن کے والد آج بھی ان کے بیٹے کی لاش کی سپردگی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ انتظامیہ نے قریبا چار ہزار اضافی نیم فوجی افراد شہر میں ہی تعینات کئے اور سڑکوں، بازاروں میں نئے سیکورٹی بنکر بھی تعمیر کئے۔
امسال سیکورٹی فورسز نے مختلف آپریشنز میں 20 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جن میں دی رزسٹنس فرنٹ کے دو کمانڈر شیخ عباس اور مہران شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق ٹی آر ایف عسکریت پسند تنظیم نے رواں سال میں 11 عام شہریوں کو ہلاک کیا جن میں بیشتر غیر مسلم آبادی بشمول غیر مقامی مزدور ہیں۔
معروف دواساز مکھن لال بندرو کے علاوہ عسکریت پسندوں نے ایک خاتون پرنسپل کو بھی ہلاک کیا۔ ان ہلاکتوں کی وجہ سے وادی بھر میں خوف کا ماحول رہا، جبکہ درجنوں غیر مقامی مزدور خوف کے مارے اپنے وطن واپس لوٹنے پر مجبور ہوئے۔
وہیں گزشتہ ماہ پولیس اور فوج نے حیدرپورہ میں چار عسکریت پسندوں کو تصام آرائی میں ہلاک کرنے کا دعوے کیا، لیکن بعد میں ان میں تین عام شہری ثابت ہوئے جن کے لواحقین نے احتجاج کرکے انکی لاش ان کے حوالے کرنے کا احتجاج کیا۔
لواحقین کے احتجاج کے دباؤ میں آکر پولیس نے دو مہلوکین کی لاشیں ان کے اہل خانہ کو سپرد کردیں اور انتظامیہ نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سرینگر کو اس متنازعہ تصادم کی پندرہ روز کے اندر تحقیقات کرنے کے ہدایت دی- لواحقین کو لاشیں تو ملی لیکن وہ انصاف سےمحروم ہیں۔
پولیس افسران کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں نے رواں برس سرینگر شہر میں اپنی کاروائیوں میں اس لیے اضافہ کیا کیونکہ شہر کی مرکزیت کی وجہ سے یہاں ان واقعات کو زیادہ میڈیا کی تشہیر ملتی ہے۔
مزید پڑھیں: Hyderpora Encounter: کچھ لوگ قاتلوں کو بے گناہ سمجھنے لگے ہیں:ڈی جی پی
ان کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ حکومت نے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد عسکریت پسندی اور علیحدگی پسندی کے خلاف سنگین کاروائیاں کیں، جس کے مقابلے میں عسکریت پسند اور شرپسند عناصر امن و امان کو بگاڑ کر حکومت کے اقدامات کو بے سود ثابت کرنا چاہتے ہیں۔