سرینگر کے حیدر پورہ علاقے میں پیر کی شام عسکریت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم آرائی میں دو عسکریت پسند اور دو عام شہری ہلاک ہوگئے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ایک شہری اصل میں عسکریت پسندوں کا اعانت کار تھا لیکن ان کے اہل خانہ نے پولیس کے بیان کی تردید کی ہے۔
ہلاک شدہ شہریوں کے لواحقین نے شہر کے ریزیڈنسی روڈ علاقے میں واقع پریس کالونی میں جمع ہوکر شدید احتجاج کیا۔ وہ انصاف کی مانگ کررہے تھے اور پولیس سے مطالبہ کررہے تھے کہ مقتول شہریوں کی لاشیں انکے سپرد کی جائیں۔ کشمیر میں حکام مارے گئے عسکریت پسندون کی لاشیں بارہمولہ اور سونمرگ کے دوردراز علاقوں میں لیجاکر دفن کرتے ہیں تاکہ انکے جنازوں پر لوگوں کی بڑی تعداد جمع نہ ہوسکے۔ حکام کہتے ہیں کہ ایسا کووڈ کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: سرینگر میں عسکریت پسندوں کے حملے میں پولیس اہلکار زخمی
مقامی ذرائع کے مطابق ہلاک شدہ شہریوں کی شناخت الطاف احمد بٹ ساکن برزلہ اور ڈاکٹر مدثر گل ساکن راولپورہ کے طور ہوئی ہے۔ الطاف احمد کے لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ ایک عام دکاندار ہے اور اسے سیکیورٹی اہلکاروں نے ’’ انسانی ڈھال‘‘ کے طور استعمال کیا۔
صائمہ بٹ ، ہلاک شدہ دکاندار کی بھتیجی ہیں۔ ایک انگریزی روزنامے کی مدیر رہ چکی صائمہ نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ انکا چاچا ایک عام شہری تھا۔ پولیس نے اسے انسانی ڈھال کے طور استعمال کرکے ہلاک کیا۔ صائمہ نے مقتول کی لاش انکے حوالے کرنے کی مانگ کی۔
ڈاکٹر مدثر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ریئل اسٹیٹ ڈیلر تھے اور انکاؤنٹر سائٹ کے متصل ایک مکان بنوارہے تھے ۔ انکے لواحقین کے مطابق وہ کام کی نگرانی کے سلسلے میں اسوقت علاقے میں موجود تھے اور فائرنگ کی زد میں آگئے۔ انسپکٹر جنرل آف پولیس نے بھی بتایا کہ ڈاکٹر گل ایک عام شہری تھے اور کراس فائرنگ میں ہلاک ہوگئے۔