جموں و کشمیر کے سونہ مرگ سے لے کر گاندربل تک سیلابی صورتحال، نالہ سے بہتی لاش کو نکالنے کا معاملہ ہویا پھر اس تیز رفتار بہاؤ سے کسی کی جان بچانی ہو یا قدرتی آفات کا معاملہ ہو، سب سے پہلے بشیر احمد میر مسیحا بن کر سامنے آتے ہیں اور لوگوں کی جانیں بچاتے ہیں۔
قدرتی آفات کے وقت ضلع بھر میں پولیس، ایس ڈی آر ایف اور فائر سروس عملے کے آمد سے قبل لوگ بشیر میر نام کے نوجوان کو یاد کرتے ہیں۔ انہیں رسکیو آپریشن کے لئے بلایا جاتا ہے۔
ضلع گاندربل کے کنگن علاقے سے تعلق رکھنے والے بشیر احمد میر جس کو وادی کے اطراف و اکناف میں brave swimmer ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ا ن کی عمر 38 سال ہے۔
دراصل بشیر احمد میر ایک سیاست داں ہیں اور جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ضلع صدر ہیں۔ انہوں نے سال 2008 اور سال 2014 میں پی ڈی پی کی ٹکٹ پر انتخابی میدان میں مد مقابل میاں الطاف احمد کے خلاف تقریبا پچیس ہزارووٹوں کے بڑے فرق سے جیت حاصل کی تھی۔ اس کے علاوہ سیاست میں اپنا مفرد مقام بنا کر مرحوم مفتی سعید کے قریبی ساتھیوں میں شمار کۓ جاتے تھے۔
بشیر احمد میر نے سال 2001 میں سب سے پہلا ریسکیو آپریشن گنون میں کیا تھا۔
بشیر احمد میر کا کہنا ہے کہ 2010 میں کوئی موبائل فون نہیں تھا۔ پولیس نے لینڈ لائن سے مجھے فون کر کے دراس سے بلایا اور نالہ سندھ سے ایک شخص کو چار دنوں کے بعد ریسکیو کر کے گھر پہنچایا۔ اس وقت سے لے کر آج تک انہوں نے مختلف مقامات پر ریسکو آپریشن انجام دیے ہیں۔
بشیر کے مطابق انہوں نے آج تک نالہ سندھ کے تیز بہاؤ سے اور نالے کی تیز لہروں سے 19افراد کو بچانے میں کامیابی حاصل کی ہے جبکہ تقریبا 55 لاشوں کو سندھ نالہ سے باہر لانے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔
بشیر احمد میر کا کہنا ہے کہ مذکورہ نالہ میں لوگوں کی موت کے بعد اگرچہ ضلع انتظامیہ گاندربل بار نالہ سندھ میں نہانے کو لے کر یا اس نالے کے نزدیک جانے پر پابندی عائد کی ہے ۔لیکن اس پر عمل آوری نہیں کی جاتی ہے
ان کے مطابق ضلع انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ گاندربل میں سوئمنگ پول بنانے کا انتظام کریں، تاکہ نوجوان تیراکی کے شوق کی تکمیل کرسکیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ضلع میں بہت ساری زمین بھی ہے جس میں سوئمنگ پول بنایا جا سکتا ہے-
مزید پڑھیں :ممبئی 26/11 حملے میں لوگوں کی جان بچانے والا چائے بیچنے پر مجبور
ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا آپ کو اس خطرناک پانی سے ڈر نہیں لگتا ہے تو انہوں نے کہا ہے کہ مجھے اب نالہ سندھ کے لہروں سے محبت ہو چکی ہے۔ اور میرے لئے اب ان لہروں سے مقابلہ کرنا کافی آسان لگ رہا ہے۔ اور میری یہی کوشش ہے کہ میری وجہ سے اگر کسی کی جان بچ جائے تو میرے لئے انکے اہل وعیال کی دعائیں کافی ہیں۔