وادی کشمیر کی دستکاری کی مصنوعات دنیا بھر میں نہ صرف مشہور ہے بلکہ یہ اپنی منفرد شناخت بھی رکھتی ہے۔ 'کانی شال' ان ہی اہم تاریخی گھریلو دستکاریوں میں شامل ہیں Kani Pashmina Shawl Making۔
جی ہاں دیگر دستکاری صنعتوں کے ساتھ ساتھ کانی شال بنانے کا کام بھی بے حد متاثر ہوا Kani Shawl Making Decline ہے، لیکن حکومتی سطح پر اس ہنر کو پھر سے فروغ دینے کے لیے مختلف اقدامات بھی اٹھائے گئے جس میں 2020 میں مرکزی سرکار کی وزارت برائے ٹیکسٹائلز کی جانب سے وسطی ضلع بڈگام کے کانہامہ گاؤں کو ہینڈ لوم ولیج کے طور پر ترقی دی گئی۔ اس پہل کو ایک کانی شال کی احیا کی خاطر ایک اہم اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہےHandloom Village of Kashmir۔
70 کی دہائی میں سرینگر، بڈگام، ماگام اور پٹن علاقے میں گھر گھر کانی شال بنانے کے لوم پائے جاتے تھے بلکہ انہی علاقوں میں بھی اس صنعت سے وابستہ ہنر مندوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ تھی۔ لیکن 80 کی دہائی کے بعد کانی شال کے بُنکروں کی تعداد میں کمی ہونے کے ساتھ یہ منفرد صنعت روبہ زوال ہونے لگی۔
سرکاری کاوشوں سے اس تاریخی دستکاری صنعت کو بچانے اور اس میں نئی روح پھونکنے کے اقدامات بھی پوری طرح سود مند ثابت نہیں ہو پا رہے ہیں، کیونکہ اب بھی یہ کام چند لومز اور ایسے ہی بچے کچے دستکاروں تک ہی محدد ہے۔
کشمیر میں دیگر دستکاری صنعتوں کے ساتھ کانی شال کا ذکر تاریخی کتابوں میں بخوبی ملتا ہے۔ تاریخی کتاب"آئینہ اکبری" کا جب مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں شال بافی اور کانی شال کے تئیں بادشاہ اکبر کی دلچسپی عیاں ہے۔
سال 2010 میں کانی شال کی جی آئی ٹیگنگ اور جون 2020 میں کانی ہامہ کو ہینڈلوم گاؤں کا درجہ دیے جانے کے بعد یہ توقع کی جارہی ہے تھی یہ کانی شال بنانے کے کام پھر سے فروغ پائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ جب ان ہنر مندوں سے بات کرتے ہیں تو یہاں مایوسی کے سوائے کچھ بھی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔
کانی شال کو بننے کے لیے لداخ کے نایاب بھیڑوں سے حاصل کیے گئے پشمینہ اون کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ پہلے اس اون کو چرکھے پر باریکی سے کاتنے کا کام انجام دے کر اون کو باریک داگے کی شکل میں تبدیل کیا جاتا ہے اور پھر مختلف رنگوں کے پشمینہ تاروں سے کانی شال بُننا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
- سرینگر: قالین کی صنعت میں نئے ڈیزائن متعارف کرنے کی مثبت پہل
- وادی کشمیر کی دستکاری صنعت میں خواتین کا کردار
کانی شال صنعت کے زوال پذیر ہونے کی اگرچہ مختلف وجوہات ہیں تاہم دستکاروں کی قلیل اجرت کو ایک اہم وجہ کے طور مانا جارہا ہے۔
ماضی میں جموں و کشمیر کی اقتصادیات کی ریڑ کی ہڈی کہلائی جانے والی یہ گھریلو دستکاریاں دن بدن معدوم ہوتی جارہی ہیں جب کہ ہنر مندوں کی تعداد بھی اب بہت کم رہ گئی ہے۔