جموں و کشمیر کی انتظامیہ کی جانب سے کشمیر پریس کلب Kashmir Press Club کی تعمیرات و عرضِ اپنی تحویل میں لینے اور اس کی الاٹمنٹ منسوخ Kashmir press Club Allotment Cancelled کرنے کے خلاف اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایڈیٹرز گلڈ اف انڈیا (ای جی ائی) نے مذمت کرتے ہوئے کلب کی فوری بحالی کی مانگ کی ہے۔
منگل کے روز ای جی آئی کی جانب سے جاری کیے بیان میں کہا گیا ہے کہ "ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا 17 جنوری 2022 کو جموں و کشمیر کی حکومت کی طرف سے کشمیر پریس کلب کو بند کرنے سے سخت غمزدہ ہے۔ کلب کو بند کرنا پریشان کن واقعات کے سلسلے میں تازہ ترین کارروائی ہے۔"
ای جی آئی کے مطابق پہلے کلب کی دوبارہ رجسٹریشن کو 14 جنوری کو رجسٹرار آف سوسائٹیز نے من مانی طور پر روک دیا پھر ادارہ جاتی اصولوں کی چونکا دینے والی خلاف ورزی کے بعد جب ریاستی پولیس اور سی ار پی ایف کے تعاون سے لوگوں کے ایک گروپ نے 15 جنوری کو کلب کے دفتر اور انتظام پر قبضہ کر لیا۔"
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ "کلب کے بند ہونے اور جموں و کشمیر انتظامیہ نے اراضی کو اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ Estate Department J&Kکو واپس کرنے کے بعد خطے کا ایک اہم صحافتی ادارہ، جس نے کسی بھی آزاد میڈیا کے خلاف بدترین قسم کا ریاستی جبر و استعداد دیکھا ہے، کو مؤثر طریقے سے ختم کر دیا گیا ہے۔کشمیر پریس کلب 2018 میں قائم کیا گیا تھا، اور اس کے 300 سے زائد ممبران ہیں، جو اسے خطے میں صحافیوں کی سب سے بڑی ایسوسی ایشن ہے۔"
آزادانہ صحافت کے حوالے سے بیان میں کہا گیا ہے کہ "خطے میں میڈیا کی آزادی اور فعال سول سوسائٹی کے لیے جگہ مستقل طور پر ختم ہوتی جا رہی ہے۔ صحافیوں کو اکثر عسکری پسند گروپوں کے ساتھ ساتھ ریاست کی طرف سے دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان پر تعزیری قوانین کے تحت بھی فرد جرم عائد کی جاتے ہے، اور سکیورٹی فورسز کی طرف سے انہیں رپورٹنگ یا ان کے اداریوں کے لیے معمول کے مطابق حراست میں لیا جاتا ہے۔
جموں و کشمیر میں صحافیون کے ساتھ ہو رہی زیادتیوں پر تفصیل دیتے ہوئے کہا کہ جون 2018 میں رائزنگ کشمیر کے ایڈیٹر شجاعت بخاری کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا۔ آپریل 2020 میں صحافی پیرزادہ عاشق کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی، جس میں انہوں نے دی ہندو اخبار کے لیے ایک رپورٹ کی تھی، جب کہ فری لانس فوٹوگرافر مسرت زہرہ پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (UAPA) کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اکتوبر 2020 میں کشمیر ٹائمز کے سرینگر دفتر کو اچانک سیل کر دیا گیا۔مارچ 2021 میں، فہد شاہ، دی کشمیر والا کے چیف ایڈیٹر، کو ان کی تحریروں کی وجہ سے تیسری بار حراست میں لیا گیا۔"
ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کی جانب سے جاری پرس بیان کے مطابق اپریل 2021 میں، کشمیر پولیس نے ایک ایڈوائزری جاری کی تھی جس میں صحافیوں کو عسکریت پسندوں کے ساتھ براہ راست تصادم آرائی کی رپورٹنگ کرنے سے منع کیا گیا تھا کہ اس سے "تشدد کو ہوا دینے کا امکان ہے" یا یہ "ملک دشمن جذبات" کو فروغ دے سکتا ہے۔ حال ہی میں صحافی سجاد گل کو ایک احتجاجی خاندان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔"
گلڈ کا کہنا ہے کہ "میڈیا کے خلاف اس طرح کی زیادتیوں سے دوچار ریاست میں کشمیر پریس کلب صحافیوں کے تحفظ اور حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والا ایک اہم ادارہ تھا۔ یہ لاک ڈاؤن کے دوران بھی کھلا رہا، جس سے صحافیوں کو اپنا کام کرنے کے لیے انٹرنیٹ جیسی اہم سہولتوں کے ساتھ ساتھ نوجوان صحافیوں کی تربیت کے لیے ورکشاپس تک رسائی حاصل ہوئی۔اس لیے کلب کا بند ہونا میڈیا کی آزادی کے لیے ایک خطرناک مثال قائم کرتا ہے۔"
یہ بھی پڑھیں:
- Amid Heavy Deployment, ‘Interim Prez’ Took Over KPC: سخت سیکورٹی حصار میں ایوان صحافت پر قبضہ
- Omar, Mehbooba On Kashmir Press Club Coup: ایون صحافت پر قبضہ، سابق وزراء اعلیٰ نے کی مذمت
- Mumbai Press Club On Kashmir Press Club: ممبئی پریس کلب کا کشمیر پریس کلب پر جبری قبضہ کی مذمت
- Editors Guild of India on Kashmir Press Club: ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کشمیر پریس کلب پر 'جبرا قبضے' سے برہم
آخر میں کہا گیا ہے کہ "گلڈ اپنے پہلے کے مطالبے کا اعادہ کرتا ہے کہ رجسٹرار آف سوسائٹیز کے 14 جنوری کے حکم سے پہلے کلب کے کام کاج کے حوالے سے جمود کو بحال کیا جائے، اور یہ کہ ریاست آزاد پریس کے لیے جگہ کی تعمیر اور حفاظت کے لیے کام کرتی ہے۔