ETV Bharat / city

وکیل کی ضرورت نہیں، میں خود جرح کروں گا: یاسین ملک

جے کے ایل ایف کے چیرمین یاسین ملک تہاڑ جیل سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ عدالتی کاروائی میں شامل ہوئے۔ یاسین ملک نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں کسی وکیل کی ضرورت نہیں ہے۔

یاسین ملک
یاسین ملک
author img

By

Published : Sep 5, 2021, 7:45 PM IST

Updated : Sep 6, 2021, 2:51 PM IST

جموں کی خصوصی عدالت میں 4 فصائیہ کے ملازمین کو گولی مارنے اور اس وقت کے وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی دختر روبیہ سعید کے اغوا کے سلسلہ میں 30 سال قدیم مقدمات میں گواہوں پر جرح کا آغاز ہوا۔

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے یاسین ملک تہاڑ جیل سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ عدالتی کاروائی میں شامل ہوئے۔ ان دونوں کیسز میں یاسین ملک پر الزامات وضع کئے گئے ہیں جبکہ وہ فی الحال تہاڑ جیل میں قید ہیں۔

محمد یاسین ملک نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں کسی وکیل کی ضرورت نہیں ہے جبکہ وہ خود گواہوں سے جرح کریں گے۔ اس موقع پر دونوں کیسوں میں استغاثہ کے صرف ایک گواہ عبدالرحمن صوفی اور فضائیہ کے ملازمین کی ہلاکت کا صرف ایک ملزم سلیم عرف ناناجی موجود تھے۔ دیگر ملزمین اس موقع پر موجود نہیں تھے۔ سماعت کے دوران وکیل نے بتایا کہ کشمیر میں موجودہ حالات کے پیش نظر دیگر ملزمین عدالت میں پیش نہیں ہوسکے، جس کے بعد عدالت نے جرح کے عمل کو موخر کردیا۔ اس مقدمہ میں ایس کے بھٹ سابق قانونی مشیر کے علاوہ مونیکا کوہلی بھی اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر تھیں۔

اطلاعات کے مطابق جرح کچھ وقت کے بعد ہی ملتوی کی گئی کیونکہ دیگر ملزمین عدالت میں پیش نہیں ہوسکے۔ سیبی آئی کی چیف پراسیکیوٹر مقرر کی جانے والی سینئر وکیل مونیکا کوہلی نے ایجنسی کی جانب سے جرح کی قیادت کی۔

بھارتی فضائیہ کے 4 سپاہیوں کی 25 جنوری 1990 کو سری نگر کے مضافات میں ہلاکت کے معاملہ میں یاسین ملک اور 6 دیگر ملزمین علی محمد میر، منظور احمد صوفی، جاوید احمد میر، شوکت احمد بخش، جاوید احمد زرگر اور ناناجی ہیں۔ سی بی آئی نے اگست 1990 میں اس سلسلہ میں چارج شیٹ داخل کی تھی۰۔

مزید پرھیں:

سی بی آئی کے مطابق عسکریت پسندوں نے فضائیہ کے ملازمین پر فائرنگ کی جس میں 4 ملازمین ہلاک اور دیگر 40 زخمی ہوئے تھے۔ اسی طرح 1989 میں اس وقت مرکزی وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی دختر روبیہ سعید کے اغوا کے معاملہ میں عدالت نے اس سال 11 جنوری کو یاسین ملک اور دیگر 9 ملزمین کے خلاف الزامات وضع کئے تھے۔

جموں کی خصوصی عدالت میں 4 فصائیہ کے ملازمین کو گولی مارنے اور اس وقت کے وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی دختر روبیہ سعید کے اغوا کے سلسلہ میں 30 سال قدیم مقدمات میں گواہوں پر جرح کا آغاز ہوا۔

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے یاسین ملک تہاڑ جیل سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ عدالتی کاروائی میں شامل ہوئے۔ ان دونوں کیسز میں یاسین ملک پر الزامات وضع کئے گئے ہیں جبکہ وہ فی الحال تہاڑ جیل میں قید ہیں۔

محمد یاسین ملک نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں کسی وکیل کی ضرورت نہیں ہے جبکہ وہ خود گواہوں سے جرح کریں گے۔ اس موقع پر دونوں کیسوں میں استغاثہ کے صرف ایک گواہ عبدالرحمن صوفی اور فضائیہ کے ملازمین کی ہلاکت کا صرف ایک ملزم سلیم عرف ناناجی موجود تھے۔ دیگر ملزمین اس موقع پر موجود نہیں تھے۔ سماعت کے دوران وکیل نے بتایا کہ کشمیر میں موجودہ حالات کے پیش نظر دیگر ملزمین عدالت میں پیش نہیں ہوسکے، جس کے بعد عدالت نے جرح کے عمل کو موخر کردیا۔ اس مقدمہ میں ایس کے بھٹ سابق قانونی مشیر کے علاوہ مونیکا کوہلی بھی اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر تھیں۔

اطلاعات کے مطابق جرح کچھ وقت کے بعد ہی ملتوی کی گئی کیونکہ دیگر ملزمین عدالت میں پیش نہیں ہوسکے۔ سیبی آئی کی چیف پراسیکیوٹر مقرر کی جانے والی سینئر وکیل مونیکا کوہلی نے ایجنسی کی جانب سے جرح کی قیادت کی۔

بھارتی فضائیہ کے 4 سپاہیوں کی 25 جنوری 1990 کو سری نگر کے مضافات میں ہلاکت کے معاملہ میں یاسین ملک اور 6 دیگر ملزمین علی محمد میر، منظور احمد صوفی، جاوید احمد میر، شوکت احمد بخش، جاوید احمد زرگر اور ناناجی ہیں۔ سی بی آئی نے اگست 1990 میں اس سلسلہ میں چارج شیٹ داخل کی تھی۰۔

مزید پرھیں:

سی بی آئی کے مطابق عسکریت پسندوں نے فضائیہ کے ملازمین پر فائرنگ کی جس میں 4 ملازمین ہلاک اور دیگر 40 زخمی ہوئے تھے۔ اسی طرح 1989 میں اس وقت مرکزی وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی دختر روبیہ سعید کے اغوا کے معاملہ میں عدالت نے اس سال 11 جنوری کو یاسین ملک اور دیگر 9 ملزمین کے خلاف الزامات وضع کئے تھے۔

Last Updated : Sep 6, 2021, 2:51 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.