ضلع صدر مقام ڈوڈہ میں ضلع ترقیاتی کمشنر دفتر کے صدر دروازے کے سے متصل ایک خانہ بدوش گجر کنبہ پچھلے ایک ماہ سے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔
ضلع ڈوڈہ کے دور دراز علاقہ کاہرہ کے دروٹھ گاؤں کا گجر کنبہ ایک ماہ سے ڈوڈہ کی سڑکوں پر در بدر بھٹک رہا ہے ۔لیکن انتظامیہ کی مداخلت کے باوجود وہ اپنے ہی گھر نہیں جا پا رہے ہیں ۔
متاثرہ خاتون کے مطابق آج سے کئی برس قبل وہ دروٹھ کاہراہ سے اس وقت منتقل ہو گئی تھیں جب عسکریت پسندوں نے ان کے خاوند کا قتل کردیا تھا۔ اس وقت وہ اپنے دو ماہ کے بیٹے سمیت تین افراد کے ہمراہ پنجاب منتقل ہو گئی تھیں ۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب بچّے بڑے ہوئے تو وہ واپس گھر لوٹ آئیں مگر تب تک اُن کی زمین پر کسی نے نا جائز قبضہ کر لیا ۔جس وجہ سے وہ تقریب تیس برس سے خانہ بدوش کی زندگی گزار رہی ہیں چھ ماہ پہاڑوں پر اور چھ ماہ میدانی علاقوں میں رہ کر اپنے بچّوں کی کفالت کی ۔اپنے حق کی لڑائی کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔لیکن کامیابی نہیں ملی
ڈوڈہ میں ایک ماہ سے وہ سڑک کنارے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پرمجبور ہیں ۔آٹھ افراد پر مشتمل یہ کنبہ بے یار و مددگار ہے۔ ۔ر بارش کے موسم میں ان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔
بلال احمد نے بتایا کہ گاؤں کے لوگوں نے اُن کی بیوہ ماں کے اکیلے پن کا فائدہ اُٹھایا اور تمام زمین اپنے نام کر لی ہے ۔ پہلے ان کے والد کا قتل کیا پھر ماں کے ساتھ مار پیٹ کی گئی جس کی وجہ سے اُن کا دماغی توازن بھی بگڑ گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب وہ اپنے گھر جاتے ہیں تو اُن کو جان سے مارنے کی دھمکی دی جاتی ہے
انہوں نے مزی دکہا کہ پہلے تو شکاری نامی شخص نے صاف منع کیا کہ اُن کی کوئی زمین نہیں ہے لیکن انتظامیہ کی مداخلت کے بعد دو کنال اراضی بازیاب ہوئی ہے۔۔ ڈوڈہ شہر کی مصروف ترین سڑک کے کنارے پر موجود اس کنبہ کو وہاں پر تعینات سی آر پیایف کے جوان دو وقت کی روٹی دے دیتے ہی ۔
بلال نے بتایا کہ کچھ لوگ اُن پر ترس کھا کر دو وقت کا کھانا دے دیتے ہیں ۔لیکن اُن کی لڑائی اپنی ہی زمین کو واپس لانے کے لئےہے جس کے لئے اُنہیں مدد کی ضرورت ہے ۔
مزید پڑھیں:
شوپیان:گجر بکروال طبقہ آج بھی اپنی روایات پر عمل پیرا ہیں
انہوں نے مزیدکہا کہ آج تک کسی بھی طبقہ کے لیڈران نے اُن کی مدد نہیں کی ۔اور خاص طور پر گجر بکروال طبقہ کی فلاح بہبود کے لئے جد وجہد کرنے والی تنظیموں نے بھی ان کے معاملے کو عدالت تک نہیں پہنچایا ۔
بلال نے بتایا کہ وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہتے ہیں لیکن اُن کے پاس وسائل کی قلت ہے۔ وکیل کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے