کشمیر یونیورسٹی کے پانچ طالب علموں نے ایک ایسا ہی منفرد رائس ککر ایجاد کیا ہے جو کہ ایک کمانڈ کے ذریعے خود بخود نہ صرف چاول اور پانی کو ککر میں ڈال کر پکانے کا کام کرسکتا ہے بلکہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اسٹارچ کے بغیر بھی چاول تیار کا انتخاب ممکن بنا سکتا ہے۔ رائس ککر کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے یہ اشارہ کرتا ہے کہ آیا چاول کی ابلن کو باہر نکالنا ہے یا نہیں۔
کشمیر کے ہونہاروں کے حیرت انگیز ایجادات دراصل اس رائس ککر میں پانی اور چاول کے لیے مزید دو چیمبر بنائے گئے ہیں جوکہ جی ایس ایم اور آئی او ٹی پر منبی ٹیکنالوجی کے ذریعے کنٹرول کئے جاتے ہیں۔ موبائل فون کے ذریعے بھیجے گئے ایک ٹیکسٹ مسیج کے ذریعے یہ پانی اور چاول کے طے شدہ چیمبر سے خود بخود خود کار طریقے ککر میں پانی اور چاول پکانے کے لیے ڈال دے گا اور ہر مرحلے پر کمانڈ دینے والوں کو آگا بھی کرتا رہے گا کہ چاول پکانے کا عمل کا کہاں تک پہنچا ہے اور کتنے افراد کے لیے یہ تیار ہورہا ہے۔ آخیر میں ایک الرٹ بھیجے گا کہ چاول پک کر تیار ہے۔ان ہونہار طالب علموں کی جانب سے بنائے گئے اس رائس ککر میں ایک سے 12 افراد تک کے لیے چاول پکایا جا سکتا ہے جس کے لیے موبائل فون سے کمانڈ حاصل کرنے کے لیے پروگرام کو ترتیب دیا گیا ہے۔ادھر اپنی نوعیت کی یہ پہلی ایجاد پیٹنٹ جرنل میں بھی شائع ہوئی ہے۔ تاہم اب انہیں گرانٹ کا بے صبری سے انتظار ہے تاکہ اسے مینوفیکچرنگ سطح تک پہنچایا جاسکے۔اس ایجاد کے لئے درکار سازو سامان کو جمع کرنے کے لیے انہیں کئی ماہ کا عرصہ لگا ہے۔ بلآخر ساجد نور، جہانگیر حمید، عمران نذیر، عذرا حسین اور ایریز کول نے اپنے استاد ڈاکٹر بلال احمد ملک کی نگرانی میں اس الگ اور منفرد ایجاد کو مکمل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
ڈاکٹر بلال احمد کہتے ہیں کہ وادی کشمیر کے نوجوان میں اب تحقیق اور ایجادات کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں انہیں ہر مرحلے پر حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ ان ہونہار طالب علموں کی خواہش ہے کہ انتظامیہ ان کے اس کام پر توجہ مرکوز کرے اور اگر اس کم قیمت والے رائس ککر کو بازار میں لایا جائے تو یہ آنے والے وقت میں عام لوگوں اور ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی کافی سود مند ثابت ہوسکتا ہے۔