گزشتہ تین دن سے سخت سردی اور بارش کے باوجود مسلسل کھلے میدان میں خواتین ڈٹی ہوئی ہیں۔ اس احتجاج کو چاروں طرف سے زبردست حمایت مل رہی ہے، اور آج بھارت بند کی کال کے سبب یہاں تاریخی بھیڑ دیکھنے کو ملی۔
عیدگاہ میدان سے ہزاروں مردو خواتین نے بیک آواز سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ جب تک یہ متنازع قانون واپس نہیں ہونگے اس وقت تک ہماری تحریک بدستور جاری رہے گی۔
متحدہ خواتین کمیٹی کے زیراہتمام دیوبند کے عیدگاہ میدان میں گزشتہ تین دنوں سے سی اے اے،این آرسی اور این پی آر کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرہ چل رہاہے۔ خواتین عیدگاہ کے میدان میں دن رات جمع ہیں اور وہ مسلسل حکومت وقت نشانہ بنارہی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اس احتجاج میں دیوبند کے اکثرو بیشتر گھروں سے باپردہ خواتین شامل ہورہی اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ اس تحریک میں اپنا تعاون دے رہی ہیں۔
منگل کی رات اور بدھ کے روز کی بھیڑ اور خواتین کا جوش خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا، سخت سردی و بارش بھی ان باہمت خواتین کے حوصلوں کو پست نہیں کرسکی، بھارت بند کا اثر بھی دیوبند میں زبردست رہا اور مسلم علاقوں میں لوگوں نے مکمل طورپر اپنی دکانیں وغیرہ بند رکھیں اور خواتین کے اس احتجاج کا حصہ بنے۔
بہوجن کرانتی مورچہ کی خواتین ونگ کی عہدیدان رنجنالہری نے اپنے خطاب کے دوران کہاکہ موجودہ مودی حکومت بھارت کو مذہب کے نام پر تقسیم کررہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ سی اے اے آئین کے خلاف ہے، جس کے لیے سیکولر بھارت میں کوئی گنجائش نہیں ، حکومت کو اس قانون کو واپس لیناہی ہوگا، کیونکہ یہ ملک گاندھی ،ڈاکٹر امبیڈکر اور مولانا ابولکلام آزاد کے قائم کردہ راستوں پر چلے گا۔'
پروگرام کی نظامت کررہی فوزیہ سرور نے کہاکہ' جب تک سی اے اے واپس نہیں ہوگا اس وقت تک ہمارا احتجاجی مظاہرہ بدستور جاری رہے گا کیونکہ ہم یہاں آئین ہند کی تحفظ کے لیے بیٹھے ہیں'۔
انقلابی نعروں کے ساتھ قومی پرچم ہاتھوں میں لیکر خواتین عیدگاہ کے میدان میں شدید سردی اور بارش کے باوجود ٹینٹ میں راتیں گزاررہی ہے، حالانکہ انتظامیہ مسلسل اس تحریک کو ختم کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن باہمت خواتین اس تحریک کو طویل مدت تک چلانے کے لیے پر عزم نظر آرہی ہیں۔ شہر سے مسلسل ٹولیوں میں ترنگے جھنڈوں کے ساتھ خواتین عیدگاہ میدان پہنچ رہی ہیں۔
خواتین نے قومی ترانہ اور آئین کی تمہید پڑھ کر مرکزی حکومت سے سی اے اے کو واپس لینے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ' ہم بھارتی خواتین حجاب میں بھی اپنی آواز بلند کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔'
میرٹھ سے آئیں محترمہ قمر جہاں نے کہاکہ' حکومت وقت ملک کے مشترکہ ورثہ اور گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے لیکن ملک کی عوام حکومت کی اس منشا کو پورا نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ یہ قانون ہر طبقہ کو ہراساں کرنے والا ہے اسلیے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں وہ فوری طور پر یہ قانون واپس لے۔'
متحدہ خواتین کمیٹی کی صدر آمنہ روشی، عنبر ملک، نازیہ پروین، عذرا خان اور سلمہ احسن نے کہا کہ' سی اے اے اور این آرسی کی وجہ سے گھروں میں پردہ میں رہنے والی خواتین کو سڑکوں پر دن رات دھرنا اور احتجاجی مظاہرہ کرنے کے لیے حکومت نے مجبور کردیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت اکثریت کے گھمنڈ کی وجہ سے غلط قوانین پاس کررہی ہے، لیکن عوامی اکثریت ایسے قوانین کو کبھی برداشت نہیں کریگی'۔
ہزاروں مردوخواتین نے انقلابی نعروں کے ساتھ حکومت کو چیلنج کیا جب تک یہ قانون واپس نہیں ہوگا اس وقت یہ دھرنا بھی ختم نہیں ہوگا۔ خواتین کی اس تحریک کے سبب دیوبند میں چپہ چپہ پر پولیس فورس تعینات ہے، خاص طور پر عیدگاہ میدان کے اطراف، ہائیوے اور دیوبند حدودی علاقوں میں فورسس کو تعینات کیاگیا۔