کارگذار چیئر مین ہارون رشید کے نشست پر بیٹھتے ہی کانگریس کے پریم چندر مشرا نے تحریک التوا تجویز کے ذریعہ اس معاملے کو اٹھاتے ہوئے کہا کہ 'میتھلی زبان آئین کے آٹھویں شیڈول میں شامل ہے اس کے باوجود اسکولی نصاب میں لازمی سبجکٹ کے طورپر میتھلی زبان کی پڑھائی کا نہ ہونا بد نصیبی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'میتھلی کی پڑھائی آزادی کے بعد سے مسلسل ریاست میں ہوتی رہی ہے اس زبان کو بولنے والوں کی تعداد کروڑوں میں رہنے پر بھی گذشتہ ڈیڑھ دہائیوں سے بہار کے اسکولی نصاب سے اسے ہٹا دیا گیا ہے۔
مشرا نے کہا کہ پڑوسی ریاست جھارکھنڈ اوردارالحکومت دہلی میں بھی میتھلی زبان کو مناسب عزت ملی ہوئی ہے لیکن بہار جیسی ریاست میں جہاں زبان کی بنیاد سب سے زیادہ ہونے کے باوجود میتھلی کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔
کانگریس رکن نے کہا کہ آئین کے آٹھویں شیڈول میں شامل جتنی بھی زبانیں ہیں اس کی پڑھائی ان سبھی ریاستوں کے اسکولوں میں ہورہی ہے جہاں اس زبان کے بولنے والوں کی آبادی اچھی خاصی ہے۔
انہوں نے کہاکہ میتھلی زبان کی پڑھائی میتھلی زبان کے اساتذہ کی تقرری اور کتابوں کی اشاعت بھی ریاست میں کئی سالوں سے بند ہے۔ بہار میں دیگر سبھی زبانوں کی تدریس کا مکمل نظم ہونا لیکن میتھلی کا نہ ہونا کئی قسم کے سوالات کھڑے کرتا ہے۔
پریم چندر مشرا نے کہا کہ 'میتھلی زبان کا معاملہ مفاد عامہ سے منسلک انتہائی اہم ہے، جس پر حکومت کو فورا توجہ دینا ضروری ہے۔
کانگریس حکومت کے وقت میں میتھلی زبان کی پڑھائی سبھی سطحوں پر باضابطہ طریقے سے ہوتی تھی اور زبان کی ہمہ جہت ترقی کیلئے اکادمی کا بھی قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ بہار کے کروڑوں لوگوں کے جذبات سے جڑا ہوا معاملہ ہے اس لیے اس پر حکومت کو بحث کرانی چاہیے۔
تبھی کونسل میں اپوزیشن لیڈر رابڑی دیوی نے کہا کہ میتھلی زبان کی پڑھائی شروع ہونی چاہیے کب تک حزب اقتدار پندرہ سال کا جاپ کرتے رہیں گے؟ فی الحال جوہو رہا ہے اس پر حزب اقتدار کو بولنا چاہیے۔
اس پر نائب وزیراعلیٰ سشیل کمار مودی نے راشٹریہ جنتادل ( آرجے ڈی ) اراکین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جب ان لوگوں کی ریاست میں حکومت تھی تو بہار پبلک سروس کمیشن ( بی پی ایس سی) کے امتحانات سے میتھلی زبان کو ہٹانے کا کام کیا گیا تھا۔
اسی دوران اپوزیشن اراکین اپنی ۔ اپنی سیٹوں کے سامنے کھڑے ہو کر زور زور سے بولنے لگے تبھی کارگذار چیئرمین نے کونسل ضابطہ کا حوالہ دے کر مشرا کے تحریک التوا تجویز کو نامنظور کر دیا۔ جس کے بعد اپوزیشن کے اراکین مطمئن ہوکر بیٹھ گئے۔