ریاست بہار کے ضلع کیمور میں چین پور بلاک ہیڈ کوارٹر سے تقریبا تین کلو میٹر کی مسافت پر مدورنا پہاڑی کے قریب بزرگ بختیار خان کا مزار مبارک واقع ہے لیکن محکمہ آثار قدیمہ کی عدم توجہی کی وجہ سے مزار کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ اور مقامی ضلع انتظامیہ کی لاپرواہی کے سبب چاروں طرف بڑے بڑے گھانسوں نے بسیرا بنا لیا ہے جس کی وجہ سے دیکھنے میں جنگل سا معلوم پڑتا ہے، ترقی اور رکھ رکھاٶ کے نام پر محکمہ آثار قدیمہ نے ایک بورڈ لگا کر اسے محفوظ علاقہ تو بنا دیا ہے، مزار مبارک کو بچانے کے لیے سماجی کارکنوں نے متعدد دفعہ آواز بھی بلند کرچکے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ بختیار خان جو اپنے وقت کے جید عالم دین اور کامل صوفی بزرگ رہے ہیں وہ افغانی بادشاہ امراء سلطنت شیر شاہ کے داماد اور بھتیجے بھی تھے، بختیار خان شیر شاہ کے بھائی نظام خان کے فرزند بھی تھے۔
بختیار خان سنہ 1668 میں بطور سپہ سالار چین پور میں تشریف لاۓ اور اس وقت آج جو علاقہ چین پور بلاک کے نام سے جانا جاتا ہے وہ علاقہ امراء سلطنت شیر شاہ کے عہد میں اترپردیش کے جونپور اور بکسر تک پھیلا ہوا تھا، اس وقت یہ علاقہ چھوٹے چھوٹے راجہ مہاراجہ کے حصہ میں منقسم تھا۔
چین پور علاقے پر شالیواہن نام کا راجہ تخت نشین تھا، جو کافی ظالم بادشاہ کے طور پر جانا جاتا تھا، جس کے ظلم سے عوام پریشان حال تھی، جب اس بات کی اطلاع دہلی میں شیر شاہ کو دی گئی تو شیر شاہ نے متعدد دفعہ ایلچی بھیج کر منع کیا، لیکن راجہ شالیواہن کا ظلم عوام پر دن بدن بڑھتا ہی جارہا تھا، تب شیر شاہ نے اپنے داماد کامل بزرگ بختیار خان کو فوج کا سپہ سالار بنا کر لشکر کے ساتھ چین پور کے لیے روانہ کیا۔
چین پور کے ہی عیسی پور کے میدان میں دونوں فوجوں کے مابین جنگ بھی ہوئی، جسمیں شالیواہن کی فوج کو شکست کا سامنہ کرنا پڑا تھا۔
فتحیابی کے بعد بختیار خان کو کیمور کی ہری بھری اور خوشگوار وادی بہت پسند آئی اور یہیں پر موضع مہولا کے پاس مدورنا پہاڑی کے نیچے ایک چھوٹا قلع نما مزار مبارک کی تعمیر کرائی، یہ مزار مبارک سہسرام واقع شیر شاہ کے قلع سے ملتا جلتا ہی تعمیر کرایا گیا۔ قلع کے باہری گنبد کی چوڑائی 42 میٹر اور لمبائی 88 میٹر اور 70میٹر چوڑا ہے۔ اس میں 24 چھوٹے بڑے گنبد کے علاوہ ہر دیوار اور گمبد پر آیت الکرسی کے علاوہ پہلا کلمہ بھی لکھا ہوا ہے۔
عربی لفظ کا استعمال کے ساتھ افغانی کشیدہ کاری قلع کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتا ہے لیکن آج سب بےحرمتی کا شکار ہے، سنہ 1914 میں محکمہ آثار قدیمہ نے اپنے زیر تحت لیا لیکن افسوس کی بات ہے کی محکمہ نے قلع کی تحفظ کے لیے کوئی بھی اقدام نہیں اٹھایا اگر محکمہ آثار قدیمہ یا مقامی ضلع انتظامیہ اس جانب توجہ دیتے تو یہ مقام سیاحت کا بہترین مرکز بھی بن سکتا ہے جس کی وجہ سے ضلع انتظامہ کے لیے آمدنی کا بہترین ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔