پٹنہ: بہار کی سیاست پر آج بھی زور آور رہنماؤں ( باہو بلی) کا سایہ برقرار ہے۔ زور آور رہنما انتخابات نہیں لڑسکتے ہیں، لیکن سیاست میں ان کی مداخلت کم نہیں ہوئی ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں زور آور رہنماؤں کی طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ اب الیکشن کمیشن کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے وہ اپنی بیوی کو ٹکٹ دلواتے ہیں اور اسمبلی پہنچ جاتے ہیں۔
زور آور رہنماؤں کی مداخلت کا سلسلہ اب بھی برقرار
ایک وقت تھا جب بہار کی سیاست میں زور آور رہنماؤں کی طوطی بولتاتھا۔ تاہم سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کی سختی کے بعد سیاست میں زور آور رہنماؤں کی براہ راست مداخلت رک گئی۔ لیکن سیاسی جماعتوں اور زور آور رہنموں کے گٹھ جوڑ نے ایک درمیانی راستہ نکال لیا۔ نئے فارمیٹ میں زور آور رہنماؤں نے اپنی بیویوں کو ٹکٹ دیا اور اس بہانے اقتدار میں بنے رہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
جے ڈی یو میں زور آور رہنماؤں کی بھرمار
زور آور رہنماؤں کے تعلق سے بات کریں تو جے ڈی یو سے زور آور رہنما دھومل سنگھ بنیاپور سے پارٹی سے ایم ایل اے ہیں۔ اس کے علاوہ اورنگ آباد سے تعلق رکھنے والے رنوجے سنگھ اور سیوان سے اجے سنگھ ایک عرصے سے انتخابات لڑ رہے ہیں۔ صرف اتناہی نہیں زور آور رہنماؤں کی بیویوں کو کو ٹکٹ دینے میں بھی جے ڈی یو پیچھے نہیں ہے۔ مشہور زور آور رہنما بوٹن سنگھ کی اہلیہ لیس سنگھ پارٹی کے ایم ایل اے ہیں۔
اس کے علاوہ زور آور رہنما اودھیش منڈل کی بیوی بما بھارتی بہار حکومت میں وزیر ہیں۔ کھگڑیا کے زور آور رہنما رنویر یادو کی بیوی پونم یادو بھی جے ڈی یو سے ایم ایل اے ہیں۔ اس فہرست میں سیوان کے زور آور رہنما اجے سنگھ کی اہلیہ کویتا سنگھ بھی شامل ہیں۔ زور آور مننا شکلا کی بیوی انو شکلا لال گنج اسمبلی سے ایم ایل اے رہ چکی ہیں اور وہ الیکشن لڑتی آرہی ہیں۔
زور آور رہنماؤں کی بیوں کو ٹکٹ دینے میں بی جے پی سر فہرست
بی جے پی کی بات کریں تو بی جے پی زور آور رہنماؤں کی بیویوں کو ٹکٹ دینے میں سر فہرست ہے۔ بکسر سے زور آور بھوور اوجھا کی بیوی کو پارٹی سے ٹکٹ ملا اور وہ ایم ایل اے بن گئیں۔ اس بار کے الیکشن میں بھی ان کی طرف سے دعوی کیا گیا ہے۔
لوک جن شکتی پارٹی کا زور آور رہنماؤں سے گہرا رشتہ
لوک جن شکتی پارٹی کا زور آور رہنماؤں سے گہرا تعلق ہے۔ ایک وقت میں بہار کے تمام زور آور رہنما رام ولاس پاسوان کے کنبے میں شامل تھے۔ آج کی تاریخ میں سورج بھان کی بیوی رانی دیوی پارٹی کی سیاست میں فعال ہے۔ دو بار رکن پارلیمنٹ رہ چکی ہیں اور فی الحال سورج بھان سنگھ کے بھائی چندن سنگھ رکن پارلیمان ہیں۔ اس کے علاوہ راما سنگھ ایل جے پی کے ٹکٹ پر رکن پارلیمنٹ بھی رہ چکے ہیں۔
ہندوستانی عوامی مورچہ بھی اس میں شامل
جتن رام مانجھی کی سربراہی میں ہندوستانی عوامی مورچہ نے گذشتہ اسمبلی انتخابات میں زور آور رہنما آنند موہن کی بیوی لولی آنند کو بھی میدان میں اتارا تھا۔ تاہم اس بار کے انتخاب میں لولی آنند نے آر جے ڈی کا دامن تھام لیا ہے۔
زور آور رہنماؤں کو ٹکٹ دینے میں کانگریس بھی پیچھے نہیں
کانگریس بھی زور آور رہنماؤں کو ٹکٹ دینے میں پیچھے نہیں ہے۔ پلی گنج کے ایم ایل اے سدھارتھ بھی ایک زور آور رہنما ہیں۔ اس کے علاوہ کانگریس نے جے ڈی یو کے للن سنگھ کے خلاف لوک سبھا انتخابات میں زور آور( باہوبلی) رہنما اننت سنگھ کی اہلیہ نیلم سنگھ کو میدان میں اتارا تھا۔ تاہم اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
آر جے ڈی اور زور آور رہنماؤں کا ساتھ پرانا
راشٹریہ جنتا دل یعنی آر جے ڈی نے زور آور رہنما راج بلبھ یادو کو ٹکٹ دیا۔ عدالت نے راج بلبھ یادو کو قصوار قرار دیا اور اس کی رکنیت بھی ختم ہوگئی۔ پارٹی کے بڑے زور آور رہنما اور سابق ممبر پارلیمنٹ شہاب الدین کی اہلیہ حنا شہاب نے متعدد بار انتخابات میں حصہ لیا، لیکن کامیابی نہیں ملی۔ سندیش ایم ایل اے ارون یادو کے خلاف بھی متعدد مقدمات درج ہیں۔ اس بار اسمبلی انتخابات میں ارون اپنی بیوی کو میدان میں اتارنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
زور آوروں کو پہلے سیاسی پارٹی چن تے ہیں پھر عوام ان کا انتخاب کرتے ہیں۔ آر جے ڈی کے چیف ترجمان بھائی وریندر کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی الیکشن لڑنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ انتخابات لڑنا شہری کا جمہوری حق ہے۔ لیکن حتمی فیصلہ عوام ہی کرتے ہیں۔
ہندوستانی عوامی مورچہ کے قومی ترجمان دانش رضوان نے کہا ہے کہ عوام فیصلہ کرتی ہے کہ زور آور کون ہے۔ کسی کے کہنے پر کوئی زور آور نہیں ہوتا، انتخابات لڑنا سبھی کا جمہوری حق ہے۔
وزیر زراعت پریم کمار کا کہنا ہے کہ عوام بہت ذہین ہیں۔ وہ کسی سے متاثر نہیں ہونے والی ہیں۔ عوام بہت سوچ سمجھ فیصلہ کرتی ہے۔ جو بھی زور آور میدان میں آئے گا عوام انہیں مسترد کردے گی۔
سیاست میں زور آور رہنماؤں کی مداخلت برقرار
سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر سنجے کمار کا کہنا ہے کہ بہار کی سیاست میں زور آور رہنماؤں کی مداخلت کم نہیں ہوئی ہے۔ زور آور رہنما خود الیکشن نہیں لڑتے، بلکہ بیویوں کو میدان میں اتارتی ہیں اور اقتدار اور طاقت کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
بہار میں اے ڈی آر کنوینر راجیو کمار بھی صورتحال سے پریشان ہیں۔ راجیو کمار کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے احکامات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ ان جماعتوں نے عوام پر چھوڑ دیا لیکن سیاسی جماعتوں کا انتخاب سب سے پہلے زور آوروں نے کیا ہے۔ اس کے بعد عوام محدو اختیارات کی وجہ سے ان کا انتخاب کرتے ہیں۔