کورونا وائرس ایسا مرض ہے جو ایک سے دوسرے کو لگتا ہے۔ حکومت نے عوام کو اس خطرناک بیماری سے بچانے کے لیے لاک ڈاؤن کیا ہے اور سوشل ڈیسٹینسگ پر سختی سے عمل کرا رہی ہے۔ لیکن جب انسان بھوک سے تڑپ رہا ہو اور زندگی ایک وقت کے کھانے پر ٹکی ہو تو پھر سوشل ڈیسٹنسنگ یا کورونا کا خوف سب باتیں بے کار نظر آتی ہیں۔
اس کی مثال شہر نوئیڈا میں بار بار دیکھنے کو ملتی ہے۔ جہاں لاکھوں کی تعداد میں مہاجر مزدور پھنسے ہوئے ہیں۔ انہیں دو وقت کا کھانا نہیں ملتا۔ جب کہیں کسی فلاحی تنظیم کی جانب سے کھانہ تقسیم کیا جاتا ہے تو ایسے بے بس لوگوں کی طویل قطاریں لگ جاتی ہیں اور کھانے لینے کے لئے سوشل ڈسٹینسنگ یا کسی بھی طرح کی لحاظ داری دیکھنے کو نہیں ملتی۔ کیونکہ زندہ رہنا ہے تو کھانا تو کھانا ہے۔
آج دوپہر کو بھی نوئیڈا کے ایلیویٹڈ روڈ پر یہ نظارہ دیکھنے کو ملا جہاں دوپہر کے کھانے کے لئے بے بس مہاجر مزدور اور ان کے کنبے کی طویل قطاریں لگ گئیں۔ حکومتی دعوی ہے کہ سب کو کھانا مہیا کرایا رہا ہے۔ لیکن یہاں سوال اٹھتا ہے کہ اگر حکومت کا دعوی سہی ہے تو یہاں یہ قطاریں کیوں لگی ہیں؟
نوئیڈا میں سیکڑوں سیکٹر ہیں اور ہر سیکٹر میں کم و بیش ایسے ہی حالات ہیں۔ ہر طرف ایک ڈر اور خوف کی فضا قائم ہے۔ دکانوں، بازار سمیت پوری زندگی کا پہیہ جام ہے۔ ایسے میں لوگ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے گھروں میں بند ہیں اور مزدور دو وقت کا کھانا حاصل کرنے کے لیے قطار میں ہیں تاکہ اپنے بھوکے بچوں کے لیے روٹی کا انتظام کرسکیں۔