ETV Bharat / city

’ارباب اقتدارعام لوگوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش میں مصروف‘

author img

By

Published : Feb 9, 2020, 7:59 PM IST

Updated : Feb 29, 2020, 7:07 PM IST

جنوبی ممبئی کے حج ہاؤس میں دانشوروں اورمفکرین پرمشتمل پیٹراٹک انٹلیکچول آف انڈیا اور اردو مرکز کے تعاون سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔

Conducting a program at the Hajj House in collaboration with the Patriotic Intellectuals of India and the Urdu Center in mumbai
حج ہاؤس میں پیٹراٹک انٹلیکچول آف انڈیا اور اردو مرکز کے تعاون سے ایک پروگرام کا انعقاد

پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے فادر فریزرمسکرہناس نے کہا کہ حکومت نے منصوبہ بندی سے ملک میں سی اے اے اور این آر سی کو نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ اصل معاملات سے بآسانی توجہ ہٹائی جاسکے۔

انہوں نے ملک کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے چند برس کے دوران تشدد میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کیا اور اس سلسلہ میں غازی آباد میں اخلاق خان کے قتل کا ذکر کیا جسے محض اس لیے قتل کردیا گیا کہ اس کے پاس بیف ہونے کی افواہ پھیلائی گئی تھی اور اس کی تصدیق تک نہیں کی گئی جبکہ پولیس نے متاثرہ خاندان کے خلاف ہی معاملات درج کیے اور حکومت نے بھی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرنے والے پولیس افسر کا تبادلہ کردیا۔

اس موقع پر ماہر آئین وتعلیم اور وائس چانسلر فیضان مصطفیٰ نے اپنی پرمغزاورمدلل تقریر کے دوران کہا کہ دستور کا ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے بلکہ دستور پرعمل آوری اہمیت کا حامل ہوتا ہے، دستور ایک جمہوری ملک کی قوت اور طاقت ہوتا ہے۔

ڈاکٹر فیضان مصطفیٰ نے کہا کہ دستور ایک سماجی معاہدہ ہوتا ہے جس سے معاشرے کی حفاظت اور اصلاح کی جاتی ہے، جلیان والا باغ کا احتجاج راولٹ ایکٹ کے خلاف تھا لیکن یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد ٹاڈس،پوٹا اور پبلک سیفٹی ایکٹ بھی زیادہ خطرناک قوانین ہم نے بنائے ہیں۔

فیضان مصطفیٰ نے اترپردیش کے وزیراعلیٰ کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک ریاست کا وزیراعلیٰ گولی مارنے کی بات کرتا ہے جوکہ انتہائی خطرناک امر ہے، گاندھی جی کے سالٹ ٹیکس کے خلاف ڈانڈی مارچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مارچ نکال کر مہاتما گاندھی نے ایسے قانون کی خلاف ورزی کی تھی جبکہ ہم نے برطانیہ کے آرٹیکل 356 کا دستور میں شامل کرلیا جس کے تحت گورنر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ریاستی حکومت کو کبھی بھی تحلیل کرسکتا ہے۔

اس اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر پنیانی نے کہا کہ گزشتہ 8-10 برسوں میں ملک کی سمت بدل دی گئی ہے۔ انہوں نے سومناتھ مندر کی تعمیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مہاتما گاندھی نے آزادی کے بعد واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ مندر سماج بنائے گا اور اس وقت وزیراعظم جواہر لال نہرو نے واضح طور پر کہا تھا کہ ہم جدید ہندوستان کے حامی ہیں اس لیے یونیورسٹی، اسکول، کارخانے تعمیر کیے جائیں جبکہ اس کے برخلاف آج کے وزیر داخلہ اجودھیا میں ایک شاندار اور عظیم الشان مندر بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

رام پنیانی نے کہا کہ گزشتہ چھ برس میں سوافراد موب لنچنگ میں مارے گئے، ان میں 90 مسلمان اور دس دلت طبقے سے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس عرصے میں فرقہ پرستی میں اضافہ ہوا ہے فرقہ پرستی کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

رام پنیانی نے کہا کہ مودی حکومت نے کالے دھن کو واپس لانے کا وعدہ کیا اور اسے پورا کرنے میں ناکامی سے شروع ہونے والی مودی حکومت کی پالیسیاں، خطرناک عنصر کی حیثیت نظرآئی ہیں ،پہلے نوٹ بندی کی گئی اور پھراس کا ظالمانہ اثربھی نظرآیا جبکہ روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ، بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو چھپانے کے لیے ایک سازش کے طورپر ارباب اقتدارکے ذریعہ تفرقہ ڈالنے کی سنگین پالیسی کو بنیاد بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ مذہب انسان کو انسان سے محبت کرنا سکھاتا ہے لیکن کچھ مفاد پرست مذہب کے نام پر فرقہ پرستی کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہاکہ اسلام نے واضح طور پر کہا کہ تمہارا مذہب تمہارے کے لیے اور میرا مذہب میرے لیے ہے اور ۔سوامی وویکانند نے کہا ہے کہ اسلام زبردستی نہیں پھیلا بلکہ ہندوستان میں رضامندی سے اسلام قبول کیا گیا اور ملک میں بلامذہب وملت تہذیب و تمدن کو فروغ دیا۔

انہوں نے کہا کہ اکبر اور رانا پرتاپ کے درمیان ہلدی کی گھاٹی مذہب کی لڑائی نہیں تھی ،اکبر کی فوج میں مان سنگھ سپہ۔سالار اور رانا پرتاپ سنگھ کے سپہ سالار حکیم خان سورتھے ،پھر یہ کیسی لڑائی تھی۔

رام پنیانی نے کہا کہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو انگریزوں نے نقصان پہنچایا ہے لیکن اس کے ساتھ ریل اور جیل کو متعارف کرایا جبکہ جدید تعلیم کو بھی نافذ کیا گیا اور ترقی کی راہیں کھل گئیں ۔آر ایس ایس ملک میں ہندوراشٹر چاہتے ہیں اور وہ منوسمرتی نافذ کرنا چاہتے ہیں جبکہ بالاصاحب امبیڈکر نے دستور کی شکل میں نیا ہندوستان دیا جسے سنگھ پریوار نہیں مانتا ہے۔

رام پنیانی نے کہا کہ معاشرہ میں غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں اور ملک میں آج ہندو اور مسلم کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی ہوگئی ہے، ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے کے درمیان محبت پھیلائی جائے ملک میں غریبوں کے حقوق کو چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شاہین باغ اب محض ایک ظاہری جگہ نہیں ہے بلکہ حکومت کی پھوٹ ڈالواور تقسیم وتفرقہ کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکا ہے، تفرقہ انگیز پالیسیوں کے ذریعہ غریب مزدوروں، کسانوں اور معاشرے کے متوسط طبقے کے مصائب میں اضافہ کیا جارہا ہے۔

معروف اداکار ششانت سنگھ نے کہا کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ دوریاں ضرور ہوئیں ہیں کئی چہروں کے نقاب اتر گئے ہیں جبکہ وسیع پیمانے پر تعلقات بھی بنے ہیں اور میں اس کے لیے مودی اور شاہ کا شکرگزار ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں بڑے بڑے چیلنج سامنے ہیں، اقتدار کے لیے فرقہ پرستی پھیلائی گئی ہے۔ دراصل تقسیم تب پیدا ہوتی ہے جب سماج اس کو قبول کرلیتا ہے۔ انہوں نے نیوزی لینڈ کا حوالہ دیا کہ اسلام کے نام پروہاں جوتشدد ہوا اس سے ملک کے معاشرے میں نفرت نہیں ہوئی بلکہ وہا ں کی وزیراعظم خود حجاب کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان آئیں۔

ششانت سنگھ نے کہا کہ نہرو کو ہر ایک خرابی کے لیے ذمہ دار ٹہراتے ہیں لیکن کانگریس کو ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ گزشتہ 70 برسوں سے بنیادی تعلیم اور ابتدائی طبی امداد کو بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔

جموں کشمیر میں جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا گیا، ماب لانچنگ اور دیگر معاملات پر توجہ نہیں دی اور سی اے اے کی شکل میں جب معاملہ گھر تک پہنچ گیا تب ہم دستور بچانے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ موجودہ نفرت کو محبت سے ختم کرنا ہوگا ہمیں اپنے محلے، رہائشی سوسائٹی اور علاقے میں ایک دوسرے کے قریب آنا ہوگا، ہمیں دیہی علاقے کو بھلا دیا ہے۔ ہندومسلم سے زیادہ غریب اور امیر کے درمیان خلیج بڑھ چکی ہے اور اسے پاٹنا ہوگا۔

ششانت سنگھ نے کہا کہ اسلام فوبیا کو دانستہ طور پر پھیلایا گیا ہے، اسلام سے زیادہ مسلمان دکھنے والوں سے نفرت کی جارہی ہے، میں نے اپنے 9 سالہ بچے میں بھی یہ چیز پائی تو میں نے اس کی تربیت کا کام اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے اور بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ نفرت کا بیج بو دیا گیا ہے اور اسے توڑنے کے لیے ہمیں پہل کرنا ہوگا، سب کو مل کر کام کرنا ہے اور آئندہ ستر برس کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔

پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے فادر فریزرمسکرہناس نے کہا کہ حکومت نے منصوبہ بندی سے ملک میں سی اے اے اور این آر سی کو نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ اصل معاملات سے بآسانی توجہ ہٹائی جاسکے۔

انہوں نے ملک کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے چند برس کے دوران تشدد میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کیا اور اس سلسلہ میں غازی آباد میں اخلاق خان کے قتل کا ذکر کیا جسے محض اس لیے قتل کردیا گیا کہ اس کے پاس بیف ہونے کی افواہ پھیلائی گئی تھی اور اس کی تصدیق تک نہیں کی گئی جبکہ پولیس نے متاثرہ خاندان کے خلاف ہی معاملات درج کیے اور حکومت نے بھی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرنے والے پولیس افسر کا تبادلہ کردیا۔

اس موقع پر ماہر آئین وتعلیم اور وائس چانسلر فیضان مصطفیٰ نے اپنی پرمغزاورمدلل تقریر کے دوران کہا کہ دستور کا ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے بلکہ دستور پرعمل آوری اہمیت کا حامل ہوتا ہے، دستور ایک جمہوری ملک کی قوت اور طاقت ہوتا ہے۔

ڈاکٹر فیضان مصطفیٰ نے کہا کہ دستور ایک سماجی معاہدہ ہوتا ہے جس سے معاشرے کی حفاظت اور اصلاح کی جاتی ہے، جلیان والا باغ کا احتجاج راولٹ ایکٹ کے خلاف تھا لیکن یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد ٹاڈس،پوٹا اور پبلک سیفٹی ایکٹ بھی زیادہ خطرناک قوانین ہم نے بنائے ہیں۔

فیضان مصطفیٰ نے اترپردیش کے وزیراعلیٰ کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک ریاست کا وزیراعلیٰ گولی مارنے کی بات کرتا ہے جوکہ انتہائی خطرناک امر ہے، گاندھی جی کے سالٹ ٹیکس کے خلاف ڈانڈی مارچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مارچ نکال کر مہاتما گاندھی نے ایسے قانون کی خلاف ورزی کی تھی جبکہ ہم نے برطانیہ کے آرٹیکل 356 کا دستور میں شامل کرلیا جس کے تحت گورنر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ریاستی حکومت کو کبھی بھی تحلیل کرسکتا ہے۔

اس اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر پنیانی نے کہا کہ گزشتہ 8-10 برسوں میں ملک کی سمت بدل دی گئی ہے۔ انہوں نے سومناتھ مندر کی تعمیر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مہاتما گاندھی نے آزادی کے بعد واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ مندر سماج بنائے گا اور اس وقت وزیراعظم جواہر لال نہرو نے واضح طور پر کہا تھا کہ ہم جدید ہندوستان کے حامی ہیں اس لیے یونیورسٹی، اسکول، کارخانے تعمیر کیے جائیں جبکہ اس کے برخلاف آج کے وزیر داخلہ اجودھیا میں ایک شاندار اور عظیم الشان مندر بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

رام پنیانی نے کہا کہ گزشتہ چھ برس میں سوافراد موب لنچنگ میں مارے گئے، ان میں 90 مسلمان اور دس دلت طبقے سے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس عرصے میں فرقہ پرستی میں اضافہ ہوا ہے فرقہ پرستی کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

رام پنیانی نے کہا کہ مودی حکومت نے کالے دھن کو واپس لانے کا وعدہ کیا اور اسے پورا کرنے میں ناکامی سے شروع ہونے والی مودی حکومت کی پالیسیاں، خطرناک عنصر کی حیثیت نظرآئی ہیں ،پہلے نوٹ بندی کی گئی اور پھراس کا ظالمانہ اثربھی نظرآیا جبکہ روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ، بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو چھپانے کے لیے ایک سازش کے طورپر ارباب اقتدارکے ذریعہ تفرقہ ڈالنے کی سنگین پالیسی کو بنیاد بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ مذہب انسان کو انسان سے محبت کرنا سکھاتا ہے لیکن کچھ مفاد پرست مذہب کے نام پر فرقہ پرستی کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہاکہ اسلام نے واضح طور پر کہا کہ تمہارا مذہب تمہارے کے لیے اور میرا مذہب میرے لیے ہے اور ۔سوامی وویکانند نے کہا ہے کہ اسلام زبردستی نہیں پھیلا بلکہ ہندوستان میں رضامندی سے اسلام قبول کیا گیا اور ملک میں بلامذہب وملت تہذیب و تمدن کو فروغ دیا۔

انہوں نے کہا کہ اکبر اور رانا پرتاپ کے درمیان ہلدی کی گھاٹی مذہب کی لڑائی نہیں تھی ،اکبر کی فوج میں مان سنگھ سپہ۔سالار اور رانا پرتاپ سنگھ کے سپہ سالار حکیم خان سورتھے ،پھر یہ کیسی لڑائی تھی۔

رام پنیانی نے کہا کہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو انگریزوں نے نقصان پہنچایا ہے لیکن اس کے ساتھ ریل اور جیل کو متعارف کرایا جبکہ جدید تعلیم کو بھی نافذ کیا گیا اور ترقی کی راہیں کھل گئیں ۔آر ایس ایس ملک میں ہندوراشٹر چاہتے ہیں اور وہ منوسمرتی نافذ کرنا چاہتے ہیں جبکہ بالاصاحب امبیڈکر نے دستور کی شکل میں نیا ہندوستان دیا جسے سنگھ پریوار نہیں مانتا ہے۔

رام پنیانی نے کہا کہ معاشرہ میں غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں اور ملک میں آج ہندو اور مسلم کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی ہوگئی ہے، ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے کے درمیان محبت پھیلائی جائے ملک میں غریبوں کے حقوق کو چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شاہین باغ اب محض ایک ظاہری جگہ نہیں ہے بلکہ حکومت کی پھوٹ ڈالواور تقسیم وتفرقہ کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکا ہے، تفرقہ انگیز پالیسیوں کے ذریعہ غریب مزدوروں، کسانوں اور معاشرے کے متوسط طبقے کے مصائب میں اضافہ کیا جارہا ہے۔

معروف اداکار ششانت سنگھ نے کہا کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ دوریاں ضرور ہوئیں ہیں کئی چہروں کے نقاب اتر گئے ہیں جبکہ وسیع پیمانے پر تعلقات بھی بنے ہیں اور میں اس کے لیے مودی اور شاہ کا شکرگزار ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں بڑے بڑے چیلنج سامنے ہیں، اقتدار کے لیے فرقہ پرستی پھیلائی گئی ہے۔ دراصل تقسیم تب پیدا ہوتی ہے جب سماج اس کو قبول کرلیتا ہے۔ انہوں نے نیوزی لینڈ کا حوالہ دیا کہ اسلام کے نام پروہاں جوتشدد ہوا اس سے ملک کے معاشرے میں نفرت نہیں ہوئی بلکہ وہا ں کی وزیراعظم خود حجاب کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان آئیں۔

ششانت سنگھ نے کہا کہ نہرو کو ہر ایک خرابی کے لیے ذمہ دار ٹہراتے ہیں لیکن کانگریس کو ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ گزشتہ 70 برسوں سے بنیادی تعلیم اور ابتدائی طبی امداد کو بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔

جموں کشمیر میں جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا گیا، ماب لانچنگ اور دیگر معاملات پر توجہ نہیں دی اور سی اے اے کی شکل میں جب معاملہ گھر تک پہنچ گیا تب ہم دستور بچانے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ موجودہ نفرت کو محبت سے ختم کرنا ہوگا ہمیں اپنے محلے، رہائشی سوسائٹی اور علاقے میں ایک دوسرے کے قریب آنا ہوگا، ہمیں دیہی علاقے کو بھلا دیا ہے۔ ہندومسلم سے زیادہ غریب اور امیر کے درمیان خلیج بڑھ چکی ہے اور اسے پاٹنا ہوگا۔

ششانت سنگھ نے کہا کہ اسلام فوبیا کو دانستہ طور پر پھیلایا گیا ہے، اسلام سے زیادہ مسلمان دکھنے والوں سے نفرت کی جارہی ہے، میں نے اپنے 9 سالہ بچے میں بھی یہ چیز پائی تو میں نے اس کی تربیت کا کام اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے اور بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ نفرت کا بیج بو دیا گیا ہے اور اسے توڑنے کے لیے ہمیں پہل کرنا ہوگا، سب کو مل کر کام کرنا ہے اور آئندہ ستر برس کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔

Intro:ممبئی،

ہندوستان جیسے عظیم ملک میں جوکہ ایشیاءمیں ترقی اور کامرانی میں اپنا ایک علیحدہ مقام بناچکا ہے اور مستقبل میں ایک سُپرپاوربننے کی حیثیت رکھتا ہے ،فی الحال بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے،دراصل اقتدار کے لیے برسر اقتدار پارٹی تقسیم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔اس کا مقصدملک کو درپیش اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے۔اس کا اظہار ملک کے دانشوروں اور مفکرین نے آج یہاں ملک کی صورتحال پر منعقدہ ایک مذاکرہ میں کیا۔Body:..Conclusion:جنوبی ممبئی کے حج ہاؤس میں مذکورہ اجلاس کا دانشوروں اور مفکرین پر مشتمل پیٹراٹک انٹلیکچو ل آف انڈیا اور اردومرکز کے تعاون سے انعقاد کیا گیا اس جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فادر فریزرمسکرہناس نے کہاکہ حکومت نے منصوبہ بندی سے ملک میں سی اے اے - این آر سی کو نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ اصل معاملات سے توجہ ہٹائی جائے اور اس طرح آئین اور دستور کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے ،انہوں نے ملک کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے چند سال کے دوران تشدد میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کیا اور اس سلسلہ میں غازی آباد میں اخلاق خان کے قتل کا ذکر کیا ،جسے محض اس لیے قتل کردیا گیا کہ اس کے پاس بیف ہونے کی افواہ پھیلائی گئی تھی اور اس کی تصدیق تک نہیں کی گئی جبکہ پولیس نے متاثرہ خاندان کے خلاف ہی معاملات درج کیے اور حکومت نے بھی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرنے والے پولیس افسر کا تبادلہ کیا گیا۔

اس موقع پر ماہر آئین وتعلیم اور وائس چانسلر فیضان مصطفیٰ نے اپنی پرمغزاورمدلل تقریر کے دوران کہاکہ دستور کا ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے بلکہ دستور پر عمل آوری انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔انہوں نے کہاکہ دستور ایک جمہوری ملک کی قوت اور طاقت ہوتاہے۔

ڈاکٹر فیضان مصطفیٰ نے کہاکہ دستور ایک سماجی معاہدہ ہوتا ہے،جس کے ملک ،قانون اور معاشرے کی حفاظت اور اصلاح کی جاتی ہے۔انہوں نے واضح طور پر کہاکہ جلیان والا باغ کااحتجاج راولٹ ایکٹ کے خلاف تھا ،لیکن یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد ٹاڈس،پوٹا اور پبلک سیفٹی ایکٹ بھی زیادہ خطرناک قوانین ہم۔نے بنائے ہیں۔

فیضان مصطفیٰ نے اترپردیش کے وزیراعلیٰ کا نام لیے بغیر کہاکہ ایک ریاست کا وزیراعلیٰ گولی مارنے کی بات کرتا ہے جوکہ انتہائی خطرناک امر ہیں،گاندھی جی کے سالٹ ٹیکس کے خلاف ڈانڈی مارچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ مارچ نکال کر مہاتما گاندھی نے ایسے قانون کی خلاف ورزی کی تھی۔جبکہ ہم نے برطانیہ کے آرٹیکل 356 کا دستور میں شامل کر لیا جس کے تحت گورنر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ریاستی حکومت کو کبھی بھی تحلیل کرسکتا ہے۔

اس اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر پنیانی نے کہا کہ گزشتہ 8-10 سال میں ملک کی سمت بدل دی گئی ہے ۔انہوں نے سومناتھ مندر کی تعمیر کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ مہاتما گاندھی نے آزادی کے بعد واضح طور پر کہہ دیا کہ مندر سماج بنائے گااور اس وقت وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے واضح طور پر کہاکہ ہم جدید ہندوستان کے حامی ہیں اور یونیورسٹی،اسکول،کارخانے اور بند تعمیر کیے جائیں اور اس کے برخلاف آج کے وزیر داخلہ اجودھیا میں ایک شاندار اور عظیم الشان مندر بنایا جائے گا۔

رام پنیانی نے کہاکہ گزشتہ چھ سال میں سو افراد لانچنگ میں مارے گئے ،ان۔میں 90 مسلمان اور دس دلت تھے۔انہوں نے کہاکہ اس عرصے میں فرقہ پرستی میں اضافہ ہوا ہے ،فرقہ پرستی کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔رام پنیانی نے کہاکہ مودی حکومت نے کالے دھن کو واپس لانے کا وعدہ کیا اور اسے پورا کرنے میں ناکامی سے شروع ہونے والی مودی حکومت کی پالیسیاں ، خطرناک عنصر کی حیثیت نظرآئی ہیں ،پہلے نوٹ بندی کی گئی اور پھراس کا ظالمانہ اثربھی نظرآیا جبکہ روزمرہ کی اشیا ءکی قیمتوں میں زبردست اضافہ ، بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو چھپانے کے لیے ایک سازش کے طورپر ارباب اقتدارکے ذریعہ تفرقہ ڈالنے کی سنگین پالیسی کو بنیادبنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔مزہب نے انسان کو انسان سے محبت کرنا سکھائے، لیکن کچھ مفاد پرست مذہب کے نام پر فرقہ پرستی کا بڑھائے گئے۔

انہوں نے مزید کہاکہ اسلام نے واضح طور پر کہاکہ تمہارا مذہب تمہارے کے لیے اور میرا مذہب ،میرے لیے ہیں۔سوامی وویکانند نے کہاہے کہ اسلام زبردستی قبول نہیں پھیلا، بلکہ ہندوستان میں رضامندی سے اسلام قبول کیا گیا اور یہ کامذہب بن گیاہے۔ملک میں بلامذہب وملت تہذیب و تمدن کو فروغ دیا۔

انہوں نے کہا کہ اکبر اور رانا پرتاپ کے درمیان ہلدی کی گھاٹی مذہب کی لڑائی نہیں تھی ،اکبر کی فوج میں مان سنگھ سپہ۔سالار اور رانا پرتاپ سنگھ کے سپہ سالار حکیم خان سورتھے ،پھر یہ کیسی لڑائی تھی۔

رام۔پنیانی۔نے کہاکہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو انگریزوں نے نقصان پہنچایا ہے ،لیکن اس کے ساتھ میل ،ریل اور جیل کو متعارف کرایا۔جبکہ جدید تعلیم کو بھی نافذ کیا گیا اور ترقی کی راہیں کھل گئیں ۔آر ایس ایس ملک میں ہندوراشٹر چاہتے ہیں۔اور وہ منو سمرتی نافذ کرنا چاہتے ہیں جبکہ بالاصاحب امبیڈکر نے دستور کی شکل۔میں نیا ہندوستان دیا جسے سنگھ پریوار نہیں مانتا ہے۔

رام۔پنیانی۔نے کہاکہ معاشرہ میں غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں اور ملک۔میں آج ہندواور مسلم۔کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی ہوگئی ہے ،اور ضرورت ہے کہ۔ہم۔ایک دوسرے کے درمیان محبت پھیلائی جائے۔ملک میں غریبوں کے حقوق کو چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شاہین باغ اب محض ایک ظاہری جگہ نہیں ہے ، بلکہ حکومت کی پھوٹ ڈالواور تقسیم وتفرقہ کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکاہے۔ انہوں نے کہا ، تفرقہ انگیزپالیسیوں کے ذریعہ غریب مزدوروں ، کسانوں اور معاشرے کے متوسط طبقے کے مصائب میں اضافہ کیا جارہا ہے۔

اس لیے کہ شناخت کا مسئلہ ، رام مندر ، بیف ، لو جہاد اور گھر واپسی جیسے جذباتی مسائل کا مقصد معاشرے کو تقسیم کرنا ہی ہے ، جبکہ بے روزگاری ، زرعی بحران ، امن و امان ، تفرقہ انگیز سیاست ، خواتین کی حفاظت جیسے اصلی مسائل ایسے معاشرے کو متحد کررہے ہیں جیسے پہلے کبھی نہیں کیے گئے۔ ہندوستان کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد حکومت کی اس تفریق کے خلاف اظہار یکجہتی کررہے ہیں کہ وہ لوگوں کو اس کی تفرقہ بازی کی سیاست کی طرف راغب کرنا ہے تاکہ ان کی توجہ کو مزید پریشان کن امور سے ہٹایا جاسکے۔ ایک قابل فخر خودمختار سیکولر جمہوریہ کی حیثیت سے ہندوستان کا مستقبل ہم پر منحصر ہے ۔

معروف اداکار ششانت سنگھ نے کہا کہ "میں نے محسوس کیا ہے کہ دوریاں ضرور ہوئیں ہیں ،کئی چہروں کے نقاب اتر گئے ہیں،جبکہ وسیع پیمانے پر تعلقات بھی بنے ہیں اور میں اس کے لیے مودی اور شاہ کا شکرگزار ہوں۔"

انہوں نے کہاکہ ملک میں کئی بڑے بڑے چیلنج سامنے ہیں ،اقتدار کے لیے فرقہ پرستی پھیلائی گئی ہے۔دراصل تقسیم تب پیدا ہوتی ہے ،جب سماج اس کو قبول کرلیتا ہے۔انہوں نے نیوزی لینڈ کا حوالہ دیا کہ اسلام کے نام پر وہاں جوتشدد ہوا ،اس ملک میں معاشرے میں تقسیم نہیں ہوئی ،وہا ں کی وزیراعظم خود حجاب کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان آئیں۔

ششانت سنگھ نے کہاکہ نہرو کو ہر ایک خرابی کے لیے ذمہ دار ٹہراتے ہیں ،لیکن کانگریس کو ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ گزشتہ 70سال سے بنیادی تعلیم اور ابتدائی طبی امداد کو بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔جموں کشمیر میں جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا گیا،ماب لانچنگ اور دیگر معاملات پر توجہ نہیں دی اور سی اے اے کی شکل میں جب معاملہ گھر تک پہنچ گیا تب ہم دستور بچانے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ موجودہ نفرت کو محبت سے ختم کرنا ہوگا ،ہمیں اپنے محلے،رہائشی سوسائٹی اور علاقے میں ایک دوسرے کے قریب آنا ہے،ہمیں دیہی علاقے کو بھلادیا ہے۔ہندومسلم سے زیادہ غریب اور امیر کے درمیان خلیج بڑھ چکی ہے اور اسے پاٹنا ہوجائے۔

ششانت سنگھ نے کہاکہ "اسلام فوبیا کو دانستہ طور پر پھیلایا گیا ہے،اسلام سے زیادہ مسلمان دکھنے والوں سے نفرت کی جارہی ہے،میں نے اپنے 9سالہ بچے میں بھی یہ چیز پائی گئی تو میں نے اس کی تربیت کاکام اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے ۔اور بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔"

انہوں نے اعتراف کیا کہ نفرت کا بیج بویا دیا گیا اور اسے توڑنے کے۔لیے ہمیں پہل کرنا ہوگا۔سب کو مل۔کر کام۔کرنا ہے اور آئندہ ستر سال کی۔منصوبہ بندی کرنا ہوگا۔
Last Updated : Feb 29, 2020, 7:07 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.