ایک طرف جہاں ریاستی و مرکزی حکومتیں انسداد بدعنوانی پر بڑے بڑے دعوے کررہی ہیں وہیں دوسری جانب حکومتی افسران ان دعؤں کی کھلے عام دھجیاں اڑا تے نظر آرہے ہیں۔
اس سے اگر ہم میرٹھ کے آر ٹی او آفس کی بات کریں تو یہاں روزانہ سینکڑوں افراد اپنی موٹر، کار جیسے وہیکلز کے ضروری کاغذات کو درست کرانے یا حاصل کرنے آتے ہیں۔ لیکن افسران کے ملی بھگت سے عوام کو رشوت دینا پڑتا ہے۔
بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے کسی بھی کاغذات کے لیے اعلان شدہ فیس سے دوگنا تین گنا زیادہ فیس دلالوں کو دیکر کام کرانا پڑتا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ قطار میں لگنے سے بغیر رشوت سے کام ہوجاتا ہے۔ تاہم اگر لائن کی بات کریں تو کب تک لائن میں رہنا پڑے اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ دلال سے رابطہ کرو تو دوگنی فیس میں فوراً کام مکمل ہوجاتا ہے۔
غور طلب ہے کہ ریاستی حکومت نے ڈرائیونگ لائسنس کے لیے سخت احکامات جاری کیے ہیں، لیکن میرٹھ کے آر ٹی او آفس میں اس پر عمل نہ کے برابر ہے۔
ڈرائیونگ لائسنس جاری کے لیے آن لائن اور آف لائن دو امتحانات ہوتے ہیں۔ آرٹی او آفس کے احاطے میں ایک ٹیڑی سڑک بنی ہوتی ہے جس میں موٹر گاڑیاں چلوا کر جائز لیا جاتا ہے۔ اگر اس میں ناکام ہوا تو لائسنس جاری نہیں ہوتا ہے۔
میرٹھ کے آر ٹی او آفس پر ان سبھی ضروری قوانین کے کھلے عام خلاف ورزیاں ہورہی ہے ہیں اور لوگ بغیر کسی امتحان پاس کیے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر لیتے ہیں۔
میرٹھ میں آئے دن سڑک حادثے پیش آتے رہتے ہیں، اور ٹرافیک نظام کی خلاف ورزی بھی دھڑلے سے ہو رہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بدعنوانی کے خلاف بات کرنے والی یوگی حکومت کی نظر ان شعبوں پر کیوں نہیں ہے؟۔