اس رپورٹ میں ہجومی تشدد کے واقعات میں ملوث ہونے والے افراد کے خلاف حکومت کو سخت سزا کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
اتر پردیش لاءکمیشن کے صدر جسٹس اے این متل نے 129 صفحات پر مشتمل ڈرافٹ میں دو درجنوں سے زائد دفعات ذکر کرکے ریاستی حکومت کو تجویز پیش کی ہے۔
ریاستی حکومت اگر اس تجویز سے اتفاق کرلیتی ہے تو 18 جولائی سے مجوزہ اسمبلی اجلاس کے دوران اس ڈرافٹ کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ اب تجویز کا انحصار یوگی حکومت پر ہے کہ وہ آئندہ 18 جولائی سے ہونے والے اسمبلی اجلاس میں اس تجویز کو قانونی (بل ) کے طور پر پیش کرتی ہے یا پھر اس میں ترمیم کر کے پیش کرے گی۔ یا یہ کہ اسے پھر سرد خانے میں ڈال دیتی ہے۔
کیوں کہ حکومت نے ہجومی تشدد جیسے واقعات پر سنجیدگی کا تو اظہار کیا ہے۔ خود وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اس طرح کے واقعات پر تشویش ظاہر کر چکے ہیں۔
جسٹس اے این متل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ریاست مغربی بنگال، کیرالہ جموں وکشمیر اور جھارکھنڈ میں پیش آنے والے حالیہ ہجومی تشدد کے واقعات نے اتر پردیش میں بھی اپنے پیر جمانے شروع کر دیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ رپورٹ میں اتر پردیش دادری کے گوتم بدھ نگر میں ہجومی تشدد کا شکار ہوئے اخلاق اور بلند شہر میں گو کشی کے شک میں جو واقعات رو نما ہوئے ہیں ان سب کا ذکر کیا گیا ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے جسٹس اے این متل نے بتایا کہ 2012 سے 2019 تک اتر پردیش میں ہجومی تشدد کے 50 واقعات ہوئے ہیں جس میں 17 افراد ہلاک ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات صرف مبینہ گو رکشا کو لے کر ہی نہیں ہو رہی ہے بلکہ چوری اندھی تقلید جیسے متعلقہ واقعات، میکانیزم پر بھی مبنی ہیں۔
جسٹس متل نے جو رپورٹ وزیر اعلی یوگی ادتیاناتھ کو سونپی ہے اس میں تقریباً اتر پردیش میں پیش آئے ہجومی تشدد کے سبھی واقعات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ماب لنچنگ کی اقسام پر انہوں نے وسیع پیمانے پر مطالعہ کر نے کے بعد یہ رپورٹ سونپی ہے۔