ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنئو کے بڑا امام باڑہ میں گزشتہ شب مولانا کلب جواد نے مجلس کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ضلعی انتظامیہ نے جو بیان دیا ہے کہ "ہم یہ غور و فکر کریں گے کہ امام باڑہ مذہبی مقام ہے یا نہیں۔" ہمیں ان کی منشا پر شک ہے کہ وہ اسے صرف سیاحوں کے لیے بنانا چاہتے ہیں لہذا ہمارا احتجاج یوں ہی مسلسل جاری رہے گا، جب تک کہ تحریری جواب نہیں مل جاتا، ضلع انتظامیہ اور شیعہ علماء کے درمیان زبانی رسہ کشی کے بعد سیاح کم تعداد میں امام باڑہ دیکھنے آئیں۔
محمد فیروز نے بتایا کہ ہم لوگ یہاں پہلی بار آئے ہیں، اب امام باڑہ اور بھول بھلیاں دیکھنے کے بعد ہی اپنے گھر کو روانہ ہوں گے۔
آدتیہ اپنی اہلیہ کے ساتھ امام باڑہ سیر و تفریح کے لئے آئے تھے، انہوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے بعد اب موقع ملا ہے لہذا اہلیہ کے ساتھ آگیا ہوں۔
معلوم رہے کہ تقریبا چھ ماہ بعد امام باڑہ کو سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا ہے، لیکن مجلس کی اجازت نہیں دی گئی ہے، جس کی وجہ سے مولانا کلب جواد نے بغیر اجازت مجلس کا اعلان کیا تھا، لیکن آج 11 بجے دن کی مجلس کسی وجہ سے ملتوی کردی گئی ہے۔
امام باڑہ کے گائیڈ پرویز حسین نے بتایا کہ سنیچر اور اتوار کو بڑی تعداد میں سیاح آئے لیکن آج مجلس کی خبر گردش کر رہی تھی، جس کا اثر یہ ہوا کہ سیاح بہت تھوڑے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے بعد جب امام باڑہ سیاحوں کے لیے کھولا گیا، تب تین دنوں تک بڑی تعداد میں سیاح سیروتفریح کے لیے آئے، لیکن اب ان کی آمد کم ہوتی جا رہی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ گذشتہ روز مولانا کلب جواد نے بغیر اجازت امام باڑہ میں مجلس کو خطاب کیا اور اس کے بعد عقیدت مندوں نے ماتم بھی کیا۔
صحافیوں سے بات چیت کے دوران کلب جواد نے کہا تھا کہ 28 ستمبر کو دن میں مجلس و ماتم کیا جائے گا کیونکہ ضلع انتظامیہ نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق ضلع انتظامیہ نے شیعہ عالم دین سے ایک دو روز کی مہلت مانگی ہے تاکہ امام بارگاہ میں مذہبی رسومات ادا کرنے پر کسی فیصلے پر پہنچا جا سکے۔