12 دسمبر کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے سی اے اے کے پاس ہوجانے اور صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد سے ملک کے مختلف حصوں میں اس کالے قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔لکھنؤ کے گھنٹہ گھر کا یہ احتجاجی مظاہرہ بھی اسی کڑی کا ایک حصہ ہے۔اس سے قبل یو پی میں سی اے اے کے خلاف احتجاج میں پولیس نے مظاہرین کو پیٹا،ان پر آنسو گیس کے گولے داغےاور سینکڑوں کو گرفتار کیا تھا۔ احتجاجی مظاہروں میں تشدد پھوٹ پڑنے کے بعد تقریبا 23 افراد کی جانیں بھی گئیں تھیں۔ اس کے بعد یو پی میں خوف کی لہر سی دوڑ گئی تھی۔
لکھنؤ کے گھنٹہ گھر پر جمعہ کو شروع ہونے والے احتجاج کے چوتھے دن آج پیر کو شاہین صفت تحریک کار خواتین نے وزیر داخلہ امت شاہ سے مطالبہ کیا کہ وہ حسین آباد کے گھنٹہ تشریف لائیں سی اے اے کے فوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے ہمارے سوالات کا جواب دیں۔امت شاہ منگل کو ریاستی راجدھانی میں سی اے اے کی حمایت میں منعقد ایک ریلی سے خطاب کریں گے۔
دہلی کے شاہین باغ سے تحریک حاصل کرنے کے بعد پہلے کانپور پھر پریاگ راج اور اس کے بعد لکھنؤ میں شروع ہونے والا احتجاج دن بدن بڑھتا اور منظم ہوتا جارہا ہے۔ پیر کو بھی احتجاج کے لئے گھنٹہ گھر پہنچنے والی خواتین و بچوں کے ہاتھوں میں ترنگا،پلے کارڈس اور بینر اور زباں پر حب الوطنی کے نعرے تھے۔خواتین ذوق در ذوق احتجاج میں پہنچ کر سی اے اے کے واپسی تک احتجاج کو جاری رکھنے کے لئے اپنے عزم واستقلال کا اظہارکررہی ہیں۔
تاہم احتجاج کے دوران معمولی سا تنازع اس وقت اٹھ کھڑا ہوا جب احتجاج میں شامل ایک خاتون نے ’’یوگی زندہ با د کے نعرے لگانے شروع کردئیے۔جس کی دوسروں نے مخالفت کی۔اور اسے جلد ہی وہاں سے باہر کردیا۔ اتوار کو بھی ایسی ہی خبریں موصول ہوئی تھیں جب کچھ عورتوں نے پاکستان کی حمایت میں نعرے لگانے کی کوشش کی تھی۔
تحریک کار و طلبہ لیڈر پوجا شکلا نے جائے احتجاج پر میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ وزیر داخلہ منگل کو لکھنؤ میں سی اے اے کی حمایت میں ریلی سے خطاب کرنے آرہے ہیں۔انہیں یہاں پہنچ کر یہاں کی عورتوں کے ساتھ ڈبیٹ میں حصہ لینا چاہئے۔یہ امت شاہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان عورتوں کو سی اے اے کے بارے میں بتائیں اور ان کے سوالوں کا جواب دیں۔
احتجاجی مظاہرے کو منظم کرنے میں محو سیمہ رانا کے مطابق احتجاج میں بڑے پیمانے پر خواتین و بچے شرکت کررہے ہیں۔ہماری کوشش ہے کہ جائے احتجاج پر ایسا انتظام کیا جائے جس سے ان کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ ہو۔ ہم کھانے سے لے کر دوا کا انتظام کررہے ہیں۔مخالفین ہمارے احتجاج میں خلل ڈالنےکی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں ہماری کوشش ہے کہ ہم اپنے احتجاج کو منظم سے منظم تر کر کے انکے ناپاک عزائم پر پانی پھیر دیں۔
سنیچر کی رات پولیس کی جانبدارنہ کاروائی اور کھانے پینے کی اشیاء مع کمبل و ٹھنڈ سے بچنے کےدیگر سامان کو تحریک کاروں سے چھینے جانے کی چوطرفہ تنقید کی بعدجہاں پولیس نے اس کا انکار کرتے ہوئے اس ضمن میں صفائی پیش کی تو اس کے بعد سے ابھی تک احتجاج پرامن طریقے سے جاری ہے۔اتوار کو احتجاج میں شرکت کے لئے آئیں لڑکیوں نے اظہار یکجہتی کے لئے پولیس اہلکار کو پھول پیش کئے تھے۔جائے احتجاج پر متعدد افراد کی جانب سے پھل و کھانے کی دیگر اشیاء لائی جارہی ہیں۔وہیں تقریبا 50 سے 60 خاتون والنٹیئرس جن میں سے غالب تعداد طالبات کی ہے احتجاج کو منظم کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہیں۔
احتجاج میں شرکت کرنے والی خواتین کا عام خیال ہے کہ موجودہ حکومت مسلمانوں کو ان پڑھ مان کر ان کامذاق بنارہی ہے۔آج مخصوص لوگ ہیں جو ہم پر ہنستے ہیں اور یہ ماحول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہمیں سی اے اے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔ہمیں صرف ورغلا کر یہاں لا کر بٹھا دیا گیا ہے۔یہ کہتے ہوئے جذباتی و آبدیدہ ہونے والی کئی طالبات کہتی ہیں کہ سی اے اے کیا ہے؟این آر سی کیا ہے ؟اس پر ہم سے کون بحث کرے گا۔ہم اب مزید بیوقوف نہیں بننے والی ہیں۔ہم نے تو کتنے ہی ان پڑھ افراد کو بھی تعلیم سے مزین کیا ہے۔ہر کوئی سمجھتا ہے کہ کیا چل رہا ہے۔
احتجاج میں شامل ہونے والے عام تحریک کار کا یہی ماننا ہے کہ سی اے اے بلواسطہ طور پر مسلمانوں کو ہدف بنانے کے لئے لایا گیا ہے اور ایسا صرف ان کی مذہب کی بنیاد پر کیا جارہا ہے۔ان کے مطابق یہ قانون ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کو ذق پہنچانے اور ہندو۔مسلم کے درمیان تفریق ڈال کر نفرت کی گہرائی کھائی پیدا کرنے کے لئے منظم سازش ہے۔ان کے مطابق سی اے اے کے خلاف احتجاج کو ایک خاص کمیونٹی کا احتجاج ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن ہمارے احتجاج میں ہر ایک شریک ہے۔
ریاستی راجدھانی کےگھنٹہ گھر کے علاوہ پریاگ راج کے منصور علی پارک اور کانپور میں بھی سینکڑوں خواتین اس کالے قانون کے خلاف پر امن طریقے سے اپنا احتجاج کررہی ہیں۔کانپور اور پریاگ راج میں گذشتہ دو ہفتوں سے جاری احتجاجی مظاہرے میں شاہین صفت خواتین کے عزائم کو نہ تو سرد ہوائیں پست کرسکیں اور نہ ہی کوئی جانبدارانہ کاروائی ان کو ان کے مقام سے جنبش دلا سکی۔اس ڈھنڈ کی رات میں بھی وہ اپنے حق کی لڑائی کے لئے کھلے آسمان کے نیچے بیٹھنے پر برضا ورغبت راضی ہیں۔