ETV Bharat / city

'حفاظ تراشے ہوئے ہیرے ہوتے ہیں'

دینی اور عصری تعلیم کو الگ کر کے یقینی طور پر ہم نے نقصان کیا ہے۔ حفاظ کرام ذہین، محنتی اور ایک تراشے ہوئے ہیرے کے مانند ہوتے ہیں۔ ان کی بہتر تعلیم و تربیت سے مستقبل روشن کیا جا سکتا ہے۔

'حفاظ تراشے ہوئے ہیرے ہوتے ہیں'
'حفاظ تراشے ہوئے ہیرے ہوتے ہیں'
author img

By

Published : Jan 1, 2021, 8:50 PM IST

Updated : Jan 1, 2021, 10:42 PM IST

دیگر مذاہب کے مقابلے مسلم سماج میں تعلیم کا فیصد بہت کم ہے۔ تعلیم کے شعبے میں کئی تنظیموں نے بہتر کام کر کے سماج میں بیداری لانے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے، انہیں میں سے ایک 'شاہین اکادمی' ہے۔

ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں شاہین اکیڈمی کے چئیرمین ڈاکٹر عبدالقادر نے بتایا کہ' ہم لوگ پہلے بچوں کی صلاحیت اور ضرورت کو سمجھتے ہیں اور انہیں پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں بہتر نتائج سامنے آرہے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالقادر نے کہا کہ' ہمارے یہاں کو- ایجوکیشن فری ہے، کیونکہ طلبا و طالبات اور والدین سے بات چیت کے دوران ہم نے پایا کہ 70 فیصد صلاحیت ایک دوسرے کو متاثر کرنے میں ضائع ہو جاتی ہے۔ لہٰذا پوری صلاحیت تعلیم پر، اخلاق بنانے، تربیت کرنے اور محنتی بنانے میں استعمال کرنا چاہیے۔

حفاظ تراشے ہوئے ہیرے ہوتے ہیں

شاہین اکادمی کے چئیر مین نے کہا کہ' میرا ماننا ہے کہ 'دینی اور عصری تعلیم کو الگ کر کے یقینی طور پر ہم نے نقصان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ' حفاظ کرام ذہین، محنتی اور ایک تراشے ہوئے ہیرے کے مانند ہوتے ہیں۔ ان کی بہتر تعلیم و تربیت سے مستقبل روشن کیا جا سکتا ہے'۔

بچے بڑی محنت سے حافظ بنتے ہیں اور والدین انہیں ٹیلر ماسٹر، آٹو ڈرائیور، فرنیچر کاریگر یا دیگر کاموں میں لگا کر ان کا مستقبل خراب کر دیتے ہیں۔ یہ بچوں کے ساتھ بہت ناانصافی ہے، ایک حافظ کو آئی اے ایس، آئی پی ایس، ڈاکٹر، پروفیسر بنانا چاہیے کیونکہ ان کے اندر صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہوتی'۔

ڈاکٹر عبدالقادر نے بتایا کہ' شاہین اکیڈمی میں گذشتہ آٹھ برسوں سے حفاظ پر تجربہ کیا جا رہا ہے، جس کے نتائج بہتر آ رہے ہیں۔ اکادمی حفظ کرانے کے ساتھ ساتھ +2' کا کورس کروا رہی ہے۔ بھارت میں ہامرے 12 سینٹرز چل رہے ہیں، جن میں سے ایک دارالحکومت لکھنؤ میں بھی قائم کیا گیا ہے۔

قوم کے فکرمند حضرات اور مدارس کے ذمہ داران سے گزارش ہے کہ حافظ کی پہچان کرکے مراکز تک پہنچائیں۔ بھارت میں اس طرح کے سینٹرز کی مزید ضرورت ہے۔اس کے لیے لوگوں کو آگے آنا چاہیے۔ شاہین اکیڈمی میں ایسے طالب علم موجود ہیں، جنہوں نے کبھی اسکول کالج کا منہ نہیں دیکھا لیکن آج وہ کامیابی کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالقادر نے کہا کہ' ذمہ داران گاؤں سے بھی بچے کو آگے بڑھائیں، ان کی حوصلہ افزائی اور مالی امداد کریں۔ اس کے جلد ہی بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ ہمیں صرف شروعات کرنے کی ضرورت ہے'۔

مزید پڑھیں: بی ایچ یو کے نو منتخب چیف پراکٹر سے خصوصی گفتگو

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت میں 500 کیمپسز کی ضرورت ہے، جہاں پر ایک ایک ہزار بچے تعلیم حاصل کر سکیں۔ اسی کے ذریعے ہم اپنی 'نسلوں کی حفاظت' کر سکتے ہیں اور سماج و ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

دیگر مذاہب کے مقابلے مسلم سماج میں تعلیم کا فیصد بہت کم ہے۔ تعلیم کے شعبے میں کئی تنظیموں نے بہتر کام کر کے سماج میں بیداری لانے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے، انہیں میں سے ایک 'شاہین اکادمی' ہے۔

ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں شاہین اکیڈمی کے چئیرمین ڈاکٹر عبدالقادر نے بتایا کہ' ہم لوگ پہلے بچوں کی صلاحیت اور ضرورت کو سمجھتے ہیں اور انہیں پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں بہتر نتائج سامنے آرہے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالقادر نے کہا کہ' ہمارے یہاں کو- ایجوکیشن فری ہے، کیونکہ طلبا و طالبات اور والدین سے بات چیت کے دوران ہم نے پایا کہ 70 فیصد صلاحیت ایک دوسرے کو متاثر کرنے میں ضائع ہو جاتی ہے۔ لہٰذا پوری صلاحیت تعلیم پر، اخلاق بنانے، تربیت کرنے اور محنتی بنانے میں استعمال کرنا چاہیے۔

حفاظ تراشے ہوئے ہیرے ہوتے ہیں

شاہین اکادمی کے چئیر مین نے کہا کہ' میرا ماننا ہے کہ 'دینی اور عصری تعلیم کو الگ کر کے یقینی طور پر ہم نے نقصان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ' حفاظ کرام ذہین، محنتی اور ایک تراشے ہوئے ہیرے کے مانند ہوتے ہیں۔ ان کی بہتر تعلیم و تربیت سے مستقبل روشن کیا جا سکتا ہے'۔

بچے بڑی محنت سے حافظ بنتے ہیں اور والدین انہیں ٹیلر ماسٹر، آٹو ڈرائیور، فرنیچر کاریگر یا دیگر کاموں میں لگا کر ان کا مستقبل خراب کر دیتے ہیں۔ یہ بچوں کے ساتھ بہت ناانصافی ہے، ایک حافظ کو آئی اے ایس، آئی پی ایس، ڈاکٹر، پروفیسر بنانا چاہیے کیونکہ ان کے اندر صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہوتی'۔

ڈاکٹر عبدالقادر نے بتایا کہ' شاہین اکیڈمی میں گذشتہ آٹھ برسوں سے حفاظ پر تجربہ کیا جا رہا ہے، جس کے نتائج بہتر آ رہے ہیں۔ اکادمی حفظ کرانے کے ساتھ ساتھ +2' کا کورس کروا رہی ہے۔ بھارت میں ہامرے 12 سینٹرز چل رہے ہیں، جن میں سے ایک دارالحکومت لکھنؤ میں بھی قائم کیا گیا ہے۔

قوم کے فکرمند حضرات اور مدارس کے ذمہ داران سے گزارش ہے کہ حافظ کی پہچان کرکے مراکز تک پہنچائیں۔ بھارت میں اس طرح کے سینٹرز کی مزید ضرورت ہے۔اس کے لیے لوگوں کو آگے آنا چاہیے۔ شاہین اکیڈمی میں ایسے طالب علم موجود ہیں، جنہوں نے کبھی اسکول کالج کا منہ نہیں دیکھا لیکن آج وہ کامیابی کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالقادر نے کہا کہ' ذمہ داران گاؤں سے بھی بچے کو آگے بڑھائیں، ان کی حوصلہ افزائی اور مالی امداد کریں۔ اس کے جلد ہی بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ ہمیں صرف شروعات کرنے کی ضرورت ہے'۔

مزید پڑھیں: بی ایچ یو کے نو منتخب چیف پراکٹر سے خصوصی گفتگو

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت میں 500 کیمپسز کی ضرورت ہے، جہاں پر ایک ایک ہزار بچے تعلیم حاصل کر سکیں۔ اسی کے ذریعے ہم اپنی 'نسلوں کی حفاظت' کر سکتے ہیں اور سماج و ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

Last Updated : Jan 1, 2021, 10:42 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.