ETV Bharat / city

'الیکشن کی وجہ سے یوپی میں مساجد نشانے پر' - تعلیم گاہ کو برقرار رکھنے کے لیے دستخط

اقلیتی طبقے سے وابستہ ذمہ دار لوگوں کا ماننا ہے کہ'بی جے پی میدان کھوچکی ہے، اس لیے فرقہ واریت کی بنیاد پر الیکشن میں لڑنا چاہتی ہے'۔

bjp govt trying to Polarization in up
bjp govt trying to Polarization in up
author img

By

Published : Jun 9, 2021, 8:19 PM IST

یو پی اسمبلی کے انتخابات نزدیک آتے ہی یہاں مذہبی منافرت کی کوششیں تیز ہونے لگی ہیں۔ بارہ بنکی ضلع میں جس طرح سے ایک خاص طبقہ کے مذہبی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسے دیکھتے کر ایسا ہی محسوس ہونے لگا ہے کہ انتخابات سے قبل مذہبی پولرائزیشن کی کوشش تیز ہوگئی ہیں۔ یہاں کے خواجہ غریب نواز مسجد کے بعد اب ایک اور مسجد و تعلیمی ادارہ سرخیوں میں ہے، جسے منہدم کرنے اور فرقہ واریت کو فروغ دینے کی پوری کوشش کی گئی۔

ویڈیو

دراصل بارہ بنکی ہیڈ کوارٹر سے تقریباً 40 کلومیٹر دور کرسی۔ محمود آباد روڈ پر واقع کتلی کلا گاؤں کی مسجد اور مدرسے کو رواں برس 31 مارچ کو ایس ڈی ایم فتح پور کے دفتر سے ایک نوٹس جاری کی گئی۔ جس میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کے اس فیصلے کا حوالہ دیا گیا جس کے مطابق اگر کوئی عبادت گاہ جو عوامی مقامات، شاہراہ پر واقع ہو اور اس کی تعمیر سنہ 2011 سے قبل ہوتو اسے وہاں سے ہٹایا جائے اور اگر وہ عبادت گاہ سنہ 2011 کے بعد تعمیر کی گئی ہو تو اسے منہدم کیاجائے۔'

bjp govt trying to Polarization in up
ایس ڈی ایم فتح پور کے دفتر سے ایک نوٹس جاری کی گئی

ایس ٹی ایم فتح پور نے اسی حکم نامے کا حوالہ دیتے ہوئے مذہبی عبادت گاہ و دینی تعلیمی ادارے کو ہٹانے کا حکم دیا۔ مزید ایک ہفتے کے درمیان جواب بھی طلب کیا گیا تھا۔ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی بات چیت میں مسجد و تعلیمی ادارے کے ذمہ داران نے کہا کہ' مذکورہ نوٹس پر پانچ اپریل کو دستی اور بعد میں بذریعہ ڈاک جواب بھی دیا جا چکا ہے۔

نوٹس کے جواب کے بعد سب کچھ ٹھیک مانا جا رہا تھا۔ تاہم اس کے بعد تحصیلدار فتح پور کی جانب سے 31 مئی کو جاری کی گئی نوٹس سے کتلی کلا کی مسجد اور مدرسہ دوبارہ سرخیوں میں آگئی۔ یہ نوٹس علاقائی بی جے پی رکن اسمبلی ساکیندر ورما کی اس شکایت پر جاری کی گئی، جس میں انہوں نے مدرسے کو غیر قانونی بتاتے ہوئے وزیر اعلی سے کاروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ شکایت میں انہوں نے مدرسے کو منہدم کیے جانے کی بھی گزارش کی تھی۔ اس نوٹس پر بھی ایک ہفتے کے درمیان جواب طلب کیا گیا تھا۔ جس کا جواب بھی دیا جا چکا ہے۔

کتلی کلا گاؤں کی مسجد اور مدرسے کے پیروکاروں کے مطابق دونوں عمارتیں زمینداری کے خاتمے سے قبل کی ہیں۔ پہلے اس کا نمبر 100 تھا جو بعد میں 78 ہوگیا۔ یہ اراضی محمد امیر حیدر کے نام پر درج ہے۔ قدیم دور سے اس مسجد میں نماز اور بچوں کو تعلیم دی جاتی رہی ہے۔ ان کے مطابق سنہ 1989 میں عمارت کی خستہ حال پر نئی عمارت کی تعمیر کی گئی۔ اور سنہ 2003 میں سوسائٹی رجسٹریشن کرایا گیا۔

ذمہ داروں کا دعویٰ ہے کہ مدرسہ اور مسجد نہ سڑک پر ہے اور نہ ہی عوامی مقامات پر اس سے ہائی کورٹ کے حکم کے کسی بھی طرح سے کوئی خلاف ورزی بھی نہیں ہورہی ہے، بلکہ اس قسم کی نوٹسیں دے کر وہ عدالت کے حکم کی توہین کر رہے ہیں۔ وہ اس طرح کے نوٹس کو گندی و غلیظ سیاست کا حصہ مانتے ہیں'۔

مسجد اور مدرسے کے پیروکاروں کے مطابق گاؤں کے کسی بھی شخص کو مسجد اور مدرسے سے کوئی تکلیف نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ دونوں برقرار رہیں۔ کیونکہ ان کے بچے اس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ دعویٰ یہ بھی ہے کہ سنہ 2017 میں جب مدرسے کو متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی تھی تو اس وقت گاؤں کے لوگوں نے اقلیتی بہبود افسر کے سامنے دستخط کیے تھے کہ انہیں اس سے کوئی پریشانی نہیں ہے، اس دستخطی فہرست میں غیر مسلم شہری بھی شامل تھے جنہوں نے تعلیم گاہ کو برقرار رکھنے کے لیے دستخط کیے تھے۔

دوسری جانب علاقائی انتظامیہ اس کاروائی کو عام کارروائی کا حصہ بتا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کی جانچ کے بعد ہی کچھ بتایا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ تمام باتیں وہ کیمرے پر کے سامنے بولنے کو تیار نہیں ہیں۔'

افسران کی اپنی ذمہ داریاں ہیں اور ان کا اپنا ایک دائرہ بھی ہے۔ لیکن ایک ہی معاملے پر مختلف نوٹس سے سوال تو کھڑے ہوتے ہی ہیں۔ کیونکہ جانچ کے دوران ہی دوسری نوٹس کی وجہ کیا ہے؟ کیا بی جے پی رکن اسمبلی کو جانچ کی بات سے رو بہ رو نہیں کرایا جا سکتا تھا۔ واضح ہے کہ انتخابات سے قبل مذہبی پولرائزیشن کے لئے اس قسم کے معاملات کو اٹھایا جارہا ہے۔'

یو پی اسمبلی کے انتخابات نزدیک آتے ہی یہاں مذہبی منافرت کی کوششیں تیز ہونے لگی ہیں۔ بارہ بنکی ضلع میں جس طرح سے ایک خاص طبقہ کے مذہبی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسے دیکھتے کر ایسا ہی محسوس ہونے لگا ہے کہ انتخابات سے قبل مذہبی پولرائزیشن کی کوشش تیز ہوگئی ہیں۔ یہاں کے خواجہ غریب نواز مسجد کے بعد اب ایک اور مسجد و تعلیمی ادارہ سرخیوں میں ہے، جسے منہدم کرنے اور فرقہ واریت کو فروغ دینے کی پوری کوشش کی گئی۔

ویڈیو

دراصل بارہ بنکی ہیڈ کوارٹر سے تقریباً 40 کلومیٹر دور کرسی۔ محمود آباد روڈ پر واقع کتلی کلا گاؤں کی مسجد اور مدرسے کو رواں برس 31 مارچ کو ایس ڈی ایم فتح پور کے دفتر سے ایک نوٹس جاری کی گئی۔ جس میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ کے اس فیصلے کا حوالہ دیا گیا جس کے مطابق اگر کوئی عبادت گاہ جو عوامی مقامات، شاہراہ پر واقع ہو اور اس کی تعمیر سنہ 2011 سے قبل ہوتو اسے وہاں سے ہٹایا جائے اور اگر وہ عبادت گاہ سنہ 2011 کے بعد تعمیر کی گئی ہو تو اسے منہدم کیاجائے۔'

bjp govt trying to Polarization in up
ایس ڈی ایم فتح پور کے دفتر سے ایک نوٹس جاری کی گئی

ایس ٹی ایم فتح پور نے اسی حکم نامے کا حوالہ دیتے ہوئے مذہبی عبادت گاہ و دینی تعلیمی ادارے کو ہٹانے کا حکم دیا۔ مزید ایک ہفتے کے درمیان جواب بھی طلب کیا گیا تھا۔ ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی بات چیت میں مسجد و تعلیمی ادارے کے ذمہ داران نے کہا کہ' مذکورہ نوٹس پر پانچ اپریل کو دستی اور بعد میں بذریعہ ڈاک جواب بھی دیا جا چکا ہے۔

نوٹس کے جواب کے بعد سب کچھ ٹھیک مانا جا رہا تھا۔ تاہم اس کے بعد تحصیلدار فتح پور کی جانب سے 31 مئی کو جاری کی گئی نوٹس سے کتلی کلا کی مسجد اور مدرسہ دوبارہ سرخیوں میں آگئی۔ یہ نوٹس علاقائی بی جے پی رکن اسمبلی ساکیندر ورما کی اس شکایت پر جاری کی گئی، جس میں انہوں نے مدرسے کو غیر قانونی بتاتے ہوئے وزیر اعلی سے کاروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ شکایت میں انہوں نے مدرسے کو منہدم کیے جانے کی بھی گزارش کی تھی۔ اس نوٹس پر بھی ایک ہفتے کے درمیان جواب طلب کیا گیا تھا۔ جس کا جواب بھی دیا جا چکا ہے۔

کتلی کلا گاؤں کی مسجد اور مدرسے کے پیروکاروں کے مطابق دونوں عمارتیں زمینداری کے خاتمے سے قبل کی ہیں۔ پہلے اس کا نمبر 100 تھا جو بعد میں 78 ہوگیا۔ یہ اراضی محمد امیر حیدر کے نام پر درج ہے۔ قدیم دور سے اس مسجد میں نماز اور بچوں کو تعلیم دی جاتی رہی ہے۔ ان کے مطابق سنہ 1989 میں عمارت کی خستہ حال پر نئی عمارت کی تعمیر کی گئی۔ اور سنہ 2003 میں سوسائٹی رجسٹریشن کرایا گیا۔

ذمہ داروں کا دعویٰ ہے کہ مدرسہ اور مسجد نہ سڑک پر ہے اور نہ ہی عوامی مقامات پر اس سے ہائی کورٹ کے حکم کے کسی بھی طرح سے کوئی خلاف ورزی بھی نہیں ہورہی ہے، بلکہ اس قسم کی نوٹسیں دے کر وہ عدالت کے حکم کی توہین کر رہے ہیں۔ وہ اس طرح کے نوٹس کو گندی و غلیظ سیاست کا حصہ مانتے ہیں'۔

مسجد اور مدرسے کے پیروکاروں کے مطابق گاؤں کے کسی بھی شخص کو مسجد اور مدرسے سے کوئی تکلیف نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ دونوں برقرار رہیں۔ کیونکہ ان کے بچے اس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ دعویٰ یہ بھی ہے کہ سنہ 2017 میں جب مدرسے کو متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی تھی تو اس وقت گاؤں کے لوگوں نے اقلیتی بہبود افسر کے سامنے دستخط کیے تھے کہ انہیں اس سے کوئی پریشانی نہیں ہے، اس دستخطی فہرست میں غیر مسلم شہری بھی شامل تھے جنہوں نے تعلیم گاہ کو برقرار رکھنے کے لیے دستخط کیے تھے۔

دوسری جانب علاقائی انتظامیہ اس کاروائی کو عام کارروائی کا حصہ بتا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کی جانچ کے بعد ہی کچھ بتایا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ تمام باتیں وہ کیمرے پر کے سامنے بولنے کو تیار نہیں ہیں۔'

افسران کی اپنی ذمہ داریاں ہیں اور ان کا اپنا ایک دائرہ بھی ہے۔ لیکن ایک ہی معاملے پر مختلف نوٹس سے سوال تو کھڑے ہوتے ہی ہیں۔ کیونکہ جانچ کے دوران ہی دوسری نوٹس کی وجہ کیا ہے؟ کیا بی جے پی رکن اسمبلی کو جانچ کی بات سے رو بہ رو نہیں کرایا جا سکتا تھا۔ واضح ہے کہ انتخابات سے قبل مذہبی پولرائزیشن کے لئے اس قسم کے معاملات کو اٹھایا جارہا ہے۔'

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.