گجرات کے احمدآباد شہر سے تعلق رکھنے والی عائشہ کی خودکشی کے بعد مسلم سماج میں جہیز کا مسئلہ موضوع بحث ہے۔ اس سماجی برائی کے خلاف مختلف مکاتب فکر کے علما کرام نے مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خصوصاً جمعہ کے خطبہ میں ائمہ کرام سے جہیز کی حرمت اور ممانعت پر واعظ و نصیحت کرنے کی اپیل کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں مولانا خالد رشید فرنگی نے آج جہیز کا مطالبہ کرنے والوں کا سماجی بائیکاٹ کرنے کی اپیل۔
اُتر پردیش کی دارالحکومت لکھنؤ کے شہر قاضی مولانا خالد رشید فرنگی نے آج جمعہ نماز میں خطاب دیتے ہوئےکہا کہ اسلامی شریعت میں شادی کو آسان بنانے پر زور دیا گیا ہے نہ کہ دشوار بنانے پر۔ باوجود اس کے اکثر دیکھا جاتا ہے کہ مسلم معاشرے میں جہیز جیسی معلون رسم پھیلتی جا جا رہی ہے، جس سے پورا سماج پریشان ہے۔'
اس سلسلے میں گزشتہ روز ہی مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے تمام ائمہ مساجد سے اپیل کی تھی کہ وہ جمعہ کے خطبے میں نکاح کے شرعی احکامات اور میاں بیوی کے حقوق وفرائض جو خدا تعالیٰ اور رسول اکرم نے متعین فرمائے ہیں ان کو واضح طور پر آسان زبان میں نمازیوں کے سامنے بیان کرنے کی اپیل کی تھی۔
مولانا خالد رشید فرنگی نے بتایا کہ اسلام میں نکاح عبادت ہے۔ لہٰذا اسے عبادت کی طور پر لینا چاہیے۔ نکاح جیسی عظیم الشان عبادت کے موقع پر بعض لوگوں کی طرف سے جہیز کا جو غیر شرعی اور حرام مطالبہ کیا جاتا ہے اس سے لوگوں کو باز رہنا چاہیے'۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو جہیز کے لین دین سے مکمل طور پر پرہیز کرتا ہے۔ اس کے باوجود ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس میں یہ غیر اسلامی، غیر انسانی رسوم و رواج کے زد میں آچکے ہیں، اور اس ملعون راج کی وجہ سے بہت سی لڑکیاں نکاح سے محروم رہ جاتی ہیں۔'
مولانا خالد رشید نے کہا کہ علماء کرام ایسے کسی بھی شادی میں نکاح نہ پڑھائیں، جہاں پر جہیز کا مطالبہ ہوتا ہو۔ اس کے علاوہ ایسے لوگوں کا سماجی بائیکاٹ ہونا چاہیے، تبھی یہ غلط رسم و رواج پر روک لگائی جاسکتی ہے۔'
مولانا خالد رشید نے اپیل کی کہ تمام مسلمان اس بات کا عہد کریں کہ وہ اپنی اور اپنے بچوں کی شادیوں میں جہیز نہ تو لیں گے اور نہ دیں گے، تب ہی ہم لوگوں کو اس بدترین معاشرتی جرم سے چھٹکارا ملے گا۔ اس کے بعد آئندہ کوئی بھی لڑکی خود کشی جیسے سنگین جرم کا ارتکاب نہیں کرے گی'۔