ریاست اترپردیش کے ضلع رامپور میں سی اے اے اور این آر سی مظاہرے کے الزام میں پولیس کی جانب سے لوگوں کی گرفتاریاں مسلسل جاری ہیں۔ رامپور کے تھانہ گنج پولیس نے مزید 6 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ اس طرح پولیس نے یہاں دو ہفتوں میں تقریبا 27 افراد کو سنگین دفعات کے تحت گرفتار کرکے جیل بھیجا ہے۔
اس معاملے میں پولیس کی جانب سے بڑھتی گرفتاریوں پر سماجی کارکن شہلا خان نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ سے گرفتاریوں پر روک لگانے کی مانگ کی۔ تھانہ گنج پولیس نے اس گرفتاری پر جو پریس رلیز جاری کی اس کی تحریر پولیس کی گذشتہ تحریروں سے مختلف ہے۔ آج کی پریس رلیز کی تحریر اس طرح ہے۔
21دسمبر 2019 کو ہاتھی خانہ چوراہا سے بریلی گیٹ کی جانب تھانہ گنج ضلع رامپور پر خان بابا آڑھتی ولد ارشد وغیرہ 25 نامزد اور 300 سے 400 نامعلوم افراد کی بھیڑ کے ذریعہ مرکزی حکومت کے این آر سی اور شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں ایک رائے ہوکر پولیس مردہ باد اور مرکزی حکومت مردہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے ہاتھوں میں طمنچے لہراتے ہوئے آ ئے۔
ساتھ ہی اینٹ۔پتھروں سے حملہ کرکے جان سے مارنے کی نیت سے فائرنگ کی گئی۔ عوامی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ سرکاری کام میں رخنہ ڈالا گیا۔جس سے افرا تفری کا ماحول پیدا ہو گیا اور دفعہ 144 سی آر پی سی کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔
اس سے متعلق تھانہ گنج رامپور میں مقدمہ 832/19 دفعہ 147، 148، 149، 307، 353، 143، 186، 188، 336، 436، 427 اور 3/4 عوامی املاک نقصان کی بھرپائی قانون کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔' ساتھ ہی اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دیگر ملزمین کی گرفتاریوں کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان چھ ملزمین کو تھانہ گنج پولیس کے ذریعہ رامپور کے مختلف مقامات سے گرفتار کیا گیا ہے۔
سلیم ولد ضمیر خان، ساکن مسجد کالے خاں، رامپور۔
شاداب علی عرف نوشاد علی ولد محمد علی ساکن بزریہ خانسامہ رامپور
بھورا عرف شاہ رخ ولد چھوٹے ساکن بزریہ خانسامہ، رامپور
عزیز ولد خلیل ساکن محلہ جھنڈہ، رامپور
عمران احمد ولد گچھن عرف رئیس ساکن بزریہ خانسامہ، رامپور
پپو عرف سہیل عالم ولد محمد میاں عرف محبوب عالم ساکن چاہ خزان خان، رامپور
واضح رہے کہ21 دسمبر 2019 کو رامپور کی عید گاہ میں ملی قیادت کی زیر نگرانی متحدہ طور پر شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاجی جلسہ منعقد ہونا تھا۔
لیکن عین وقت پر انتظامیہ نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔عوام جب شہر کے مختلف علاقوں سے جمع ہوکر جلسہ گاہ کی جانب بڑھی تو پولیس کی بھاری نفری نے عید گاہ سے آدھا کلو میٹر دور ہاتھی خانہ کے چوراہے پر روک لیا۔
لیکن جب عوام کا جم غفیر عیدگاہ کی جانب بڑھنے کے لئے بزد ہوا تو پولیس نے آنسو گیس کے گولے داغ کر روکنے کی کوشش کی۔عوام کی جانب سے تھوڑی ہی دیر میں پتھر بازی شروع ہو گئی۔ اسی درمیان مظاہرین میں سے ایک نوجوان فیض کے گولی لگ گئی۔ جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ وہیں متعدد افراد زخمی بھی ہو گئے تھے۔
اس کے بعد پولیس نے 116 نامزد جبکہ ہزاروں نامعلوم افراد کے خلاف مختلف سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے اپنی کارروائی کرتے ہوئے 34 افراد کو قصوروار قرار دیکر جیل بھیج دیا تھا۔ لمبی جدوجہد کے بعد 26 افراد کو ضمانت دلاکر جیل سے رہا کرایا گیا تھا اور ساتھ ہی ضلع انتظامیہ اور پولیس کپتان سے اس بات کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی کہ اس معاملے اب مزید گرفتاریاں نہیں ہونگی۔
مزید پڑھیں:
اعظم خاں کے اہل خانہ سمیت مزید افراد کے خلاف چارج شیٹ داخل
لیکن پھر پولیس کی اس قسم کارروائی سے رامپور کے سماجی کارکنان اور ملی رہنماء حیران ہیں۔ اس معاملے میں سماجی کارکن شہلا خان نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ وہ سی اے اے اور این آر سی مظاہرے کے الزام میں لوگوں کی گرفتاریوں پر روک لگائیں۔