پولیس ذرائع کے مطابق انہیں سرینگر کے جنوب مین واقع ترال علاقے کے ڈاڈسرہ گاؤں میں موسیٰ کی موجودگی سے متعلق خفیہ اطلاعات ملی تھیں جس کی بنیاد پر گاؤں کو محاصرے میں لیا گیا۔
محاصرے کے دوران فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان گولیوں کا تبادلہ ہوا جس میں ذاکر موسیٰ ہلاک کردیے گئے۔ تاہم حکام نے ہلاکت کی تصدیق نہیں کی ہے۔ کشمیر میں انتہائی مطلوب عسکریت پسندوں کی فہرست میں ذاکر موسیٰ شامل تھا اور اسکے سر پر لاکھوں روپے کا انعام رکھا گیا تھا۔
ذاکر موسیٰ ، اصل میں سرکردہ حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کا ساتھی تھا لیکن جولائی 2016میں برہان کی ہلاکت کے بعد ذاکر نے حزب المجاہدین سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
علیحدگی کے بعد ذاکر موسیٰ تنازعات کا شکار رہا۔ انہوں نے پاکستان اور حریت کانفرنس کے لیڈروں کے خلاف کئی بیانات جاری کیے۔
ان تنازعات کے بعد ذاکر موسیٰ نے انصار غزوہ الہند نامی تنظیم کی بنیاد ڈالی لیکن حکام کا کہنا ہے کہ اس تنظیم کے تقریباً سبھی عسکریت پسندوں کو ہلاک کردیا گیا ہے۔
موسیٰ ترال علاقے کے ہی ایک گاؤں نور پورہ کا رہنے والا تھا۔وہ پنجاب کے ایک کالج مین انجیئرنگ کا کورس ادھورا چھوڑنے کے بعد عسکریت پسندون کی صف میں شامل ہوا تھا۔
حکام نے علاقے میں امکانی مظاہروں کو روکنے کیلئے اضافی فورسز تعینات کی ہیں جبکہ پلوامہ ضلع کے کئی علاقوں میں انٹرنیٹ خدمات بند کی گئی ہیں۔