گرفتار کئے گئے نوجوان کے اہل خانہ نے انکے آبائی علاقہ رمبیر پورہ، دمحال ہانجی پورہ میں ایک خاموش احتجاج کیا۔
اہل خانہ نے آسام پولیس سے اپیل کی کہ ’’محمد عباس کی علیل زوجہ اور تین ماہ کی بچی پر ترس کھا کر اُسے رہا کیا جائے۔‘‘
انکا مزید کہنا تھا کہ عباس کی پچھلے سال ہی شادی ہوئی ہے اور انکی ایک شیر خوار بچی بھی ہے۔ جبکہ ’’عباس کی اہلیہ ایک مہلک مرض میں مبتلا ہے۔‘‘
عباس کی زوجہ نے روتے بلکتے اعلیٰ حکام سے گزارش کی کہ عباس کی اس غلطی کو معاف کرکے اُسے رہا کیا جائے۔
انکا کہنا تھا کہ عباس کے سوا انکا کوئی سہارا نہیں ہے۔
قابل ذکر ہے کہ آسام کے رہنے والے ایک فوجی اہلکار پچھلے مہینے جھارکھنڈ میں مائونوازوں کے حملے میں ہلاک ہوئے تھے، اور ’’عباس نے فیس بک پر مقتول فوجی اہلکار اور انکے اہل خانہ کے متعلق نازیبا پوسٹ کیا تھا۔‘‘
عباس کے اہل خانہ کے مطابق انہیں 20جون کو آئی ٹی ایکٹ کے تحت جموں کشمیر پولیس کے ہمراہ آسام پولیس نے دمحال ہانجی پورہ سے گرفتار کیا تھا۔