مغربی بنگال کے مدارس ایک بڑی آبادی کے لئے تعلیم کا ذریعہ ہے۔ خصوصی طور پر دیہاتوں میں مدارس کا بہت اہم رول ہے۔ بنگال میں مکمل سرکاری،نیم سرکاری اور منظور شدہ غیر امداد یافتہ مدارس ہیں۔ ریاست مغربی بنگال میں اقتدار میں آنے کے بعد منظور شدہ غیر امداد یافتہ مدارس کے ٹیچروں کو تنخواہ دینے اور ان مدارس کو تمام تر سرکاری سہولیات دینے کا مطالبہ ہو رہا تھا۔ اس سلسلے میں ان ایڈید منظور شدہ مدارس کے ٹیچروں نے متعدد بار تحریک چلائی بھوک ہڑتال کئے۔
2016 میں مدرسہ عالیہ تالتلہ کے سامنے 96 دنوں تک دھرنے پر بیٹھے رہے اور بھوک ہڑتال بھی کیا، جس کے نتیجے میں دو ٹیچروں کی موت بھی ہو گئی تھی۔گذشتہ نو برسوں سے ان ایڈید مدرسہ ٹیچرز کی جانب سے اپنے مطالبات کو لیکر تحریک جاری ہے۔ اس درمیان ان کو کئی بار حکومت کی سختی کا سامنا کرنا پڑا۔ 2020 میں دسمبر کے مہینے میں دھرمتلہ میں احتجاج کے دوران ان کو پولیس کی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا اور جیل بھی جانا پڑا۔ ایک بار پھر سے کولکاتا کے سالٹ لیک اقلیتی امور و مدرسہ تعلیم کے دفتر کے سامنے گذشتہ ایک ہفتے ویسٹ بنگال ریکاگنائزڈ ان ایڈیڈ مدرسہ ایسوسیشن کی جانب سے دھرنا و بھوک ہڑتال جاری ہے۔
دھرنے پر بیٹھے ٹیچرز میں سے کئی ٹیچرز نے گزشتہ تین روز پہلے بھوک ہڑتال بھی شروع کیا تھا۔ ان میں سے دو ٹیچرز اب تک بیمار پڑ چکی ہیں۔ ان میں سے ایک خاتون ٹیچر سونیا پروین جن کا تعلق مرشدآباد سے ہے ان کو ہسپتال میں داخل کیا گیا ہے، جہاں وہ زیر علاج ہیں جبکہ دوسری خاتون ٹیچر کی بھی طبعیت بگڑ چکی ہے، جو ابھی بھی دھرنے کے مقام پر ہیں۔
ویسٹ بنگال ریکاگنائزڈ ان ایڈیڈ مدرسہ ٹیچرز ایسوسیشن کے جنرل سکریٹری پالس روم کا کہنا ہے کہ اپنے جائز مطالبات کے ساتھ دھرنے پر بیٹھے ٹیچرز کے ساتھ انتظامیہ کی جانب سے بالکل غیر انسانی سلوک کیا جا رہا ہے۔ اب تک ہمارے دو ٹیچرز بیمار پڑ چکے ہیں۔ بدھان نگر تھانہ سے ایمبولینس کے لئے رابطہ کرنے پر کوئی فائدہ نہیں ہوا لیکن ہم اپنی تحریک جاری رکھیں گے۔