دودن قبل آسنسول میں ایک انتخابی ریلی میں وزیرا عظم نریندر مودی کے ذریعہ 2018 میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کا ذکر کیے جانے پر آسنسول میں نوری مسجد کے امام مولانا امداد اللہ رشیدی جنہوں نے فرقہ وارانہ فساد میں نوعمر بیٹے کو کھونے کے باوجود علاقے میں امن قائم کرنےکی وجہ سے سرخیوں میں آگئے تھے۔ انہوں نے رد عمل میں کہا ہے کہ ماضی کے زخموں کو کریدنے کے بجائے وزیر اعظم کو لوگوں کے دلوں کو جوڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
رام نومی کے موقع پر 2018 میں آسنسول اور رانی گنج میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ اس فساد میں نوری مسجد کے امام مولانا امداداللہ رشیدی کے چھوٹے بیٹے17 سالہ صبغۃ اللہ کو بھیڑ اٹھا کر لے گئی اور بعد میں لاش ملی۔ اس بچے کے جسم پر زخموں کے نشانات تھے۔ یہ واقعہ سامنے آنے کے بعد پورے علاقے میں غم و غصہ پھیل گیا اور ایک بڑی بھیڑ جمع ہوگئی جو اس بچے کے خون کا بدلہ لینے کےلیے تیار تھی۔ اس موقع پر مولانا امداد اللہ رشیدی نے بیٹے کے غم پر قابو پاتے ہوئے لوگوں سے اپیل کی کہ اس شہر کو ہم لوگوں نے مل کر رونق بخشی ہے۔ اس لیے اس کو تباہ نہ ہونے دیں۔ میرے بیٹے کی جان گئی ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ کسی اور کے گھر میں اس طرح کا ماتم ہو۔'
انہوں نے کہا کہ اگر آپ لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس نہیں جائیں گے تو میں مسجد کی امامت چھوڑ دوں گا اور اس شہر کو بھی چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے چلا جاؤں گا۔
مولانا امداد اللہ رشیدی کی اس جذباتی تقریر کے بعد مجمع منتشر ہوگیا اور اس طرح آسنسول ایک بڑے فرقہ وارانہ فسادات سے بچ گیا۔ تین سال بیت جانے کے بعد گذشتہ سنیچر کو وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی ریلی میں اس فساد کا ذکر کرتے ہوئے ایک بار پھر زخم کو تازہ کر دیا ہے۔'
وزیرا عظم مودی نے 2018 میں ہوئے فرقہ وارانہ فساد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے یہاں پر فرقہ وارانہ فساد ہوئے جس میں لوگوں کی جانیں گئیں اور بڑے پیمانے پر مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
خیال رہے کہ آسنسول فرقہ وارانہ فسادات کے لیے ترنمول کانگریس اور بی جے پی دونوں ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ دائیں بازوں کی جماعتوں نے پابندی کے باوجود مسلم محلوں سے رام نومی کے جلوس نکالے اور نعرے بازی کی وجہ سے حالات بگڑے۔ جب کہ بی جے پی نے اس وقت کہ آسنسول کے میئر و سابق ممبر اسمبلی جیتندر تیواری کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جیتندر تیواری اب بی جے پی میں ہیں۔
مولانا امداد اللہ رشید نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور انتقامی سیاست سے گریز کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ تین برس بعد اس زخم کو تازہ کرنے کی کوشش کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔ یہاں ساتویں مرحلے میں پولنگ ہونی ہے۔
مولانا امداد اللہ رشیدی نے کہا کہ وزیرا عظم ملک کے ہیں۔ انہیں کسی ایک فرقے اور طبقے کو مطعون کرنے اور فرقہ واریت کے زخم کو تازہ نہیں کرنا چاہیے۔ سیاسی فائدہ کے لیے اس طرح کے بیانات دینے سے بچنا چاہیے'۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر سے ایک بارپھر لوگوں کے زخم تازہ ہوگئے ہیں۔ ہم لوگ اس بد قسمت واقعے کو یاد کرنا نہیں چاہتے ہیں۔'
مولانا امداد اللہ رشید نے کہا کہ وزیر اعظم مودی انتخابی ریلی میں شہر کی ترقی کی بات کرتے اور ہمیں اتحاد کا پیغام دیتے تو خوشی ہوتی مگر انہوں نے ہمیں مایوس کیا ۔ہمارے زخموں کو تازہ کردیا ہے۔ہم اپنے کھوئے ہوئے بچے کو یاد کرنا نہیں چاہتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ میں کسی بھی پارٹی کا آدمی نہیں ہوں، وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کی عزت کرتا ہوں، میرے اس موقف کو کسی بھی تعصب کی نظر سے نہیں دیکھا جائے۔ میں صرف امن وامان کی بات کرتا ہوں اور اشتعال انگیزتقریروں کے خلاف ہوں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میں سیاست داں نہیں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک بھر میں کورونا کی صورت حال خطرناک حد تک پھیل گیاہے۔ لوگوں کی جانیں جارہی ہیں۔ رشید ی نے کہا کہ ضرورت تھی اس پر بات کی جاتی مگر افسوس کہ یہ نہیں ہوسکا ہے'۔
یواین آئی