سید ابوالبرکات نظمی کا کہا ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں جس طرح سے ڈاکٹر کفیل کو بے قصور اور ضلع علی گڑھ کے ڈی ایم نے جس طرح سے لاپرواہی برتتے ہوئے ملک مخالف دفعات لگاتے ہوئے انہیں جیل بھیجا، اسے غیر قانونی بتایا۔ ایسا لگتا ہے کہ اتر پردیش سرکار نے ارادتا اپنے مفاد حاصل کرنے کے لیے یہ ساری کاروائی کی ہے۔ اتر پردیش سرکار نے صوبے کے تمام اضلاع میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے بے شمار نوجوانوں پر سنگین دفعات لگاتے ہوئے انہیں جیل میں ڈال کر پریشان کیا ہے یہ بھی غیر قانونی ہے۔ حکومت میں بیٹھے لوگوں کی یہ شر پسندی ہے جسے برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔
سید ابوالبرکات نظمی نے مزید کہا کہ تبلیغی جماعت پر بامبے ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ ملک بھر میں نفرت پھیلانے والے سماجی عناصر جو موجودہ حکومت میں بھی موجود ہیں، ان لوگوں کے ذریعے سے جس طرح سے نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی اسی سازش کے تحت کانپور میں بھی نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی تھی، جس میں کانپور میڈیکل کالج کی پرنسپل ڈاکٹر آرتی لال چندانی نے تبلیغی جماعت کے لوگوں کو نشانہ بناتے ہوئے نفرت کا زہر اگلا تھا۔ اس پر سید ابو البرکات نظمی نے ان کے خلاف ایف آئی آر لکھانے کی کوشش کی تھی جو لکھی نہیں گئی۔ انہوں نے وزیراعلی کے پورٹل پر اپنی شکایت درج کرا دی تھی اور عدالت میں 3/156 کی کاروائی کرتے ہوئے عرضی داخل کر دی تھی، جس پر ان کا کہنا ہے کہ جلد ہی ان پر بھی مقدمہ کر کے قانونی کاروائی کروائی جائے گی۔
سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج میں کانپور میں بند تمام نوجوانوں پر درج مقدمات کی دیکھ بھال اور پیروی سید ابوالبرکات نظمی اپنے اخراجات پر کر رہے ہیں۔ ان کا خود کا بیٹا وکیل ہے جو تمام مقدمات کی پیروی بھی کر رہا ہے۔ اب تک پچاس سے زائد لوگوں کو وہ جیل سے رہا بھی کرا چکے ہیں۔ جیل میں بند لوگوں کے اہل خانہ کی کفالت کے بھی انتظامات خود کرتے ہیں۔