آپ کو بتا دیں کہ پانچ اگست کو ایودھیا میں رام مندر بنانے کے لئے بھومی پوجن کیا جانا ہے جس کو لے کر بھارت کی میڈیا اور سوشل میڈیا اس بھومی پوجن کو اس طرح سے بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے جیسے اس ملک کے اندر سے اب کرونا وائرس کی وبا ختم ہو گئی ہے اور چین کا سرحدی مسئلہ بھی حل ہو چکا ہے۔
میڈیا کے اس طرح کے اظہار کامقصد صرف ایک طبقے کو ٹھیس پہنچانا ہے۔ مسلم رہنما بھی اس طرح کے پروپیگنڈہ پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے تاسیسی رکن سید ابو البرکات نظمی جنہوں نے بابری مسجد کی بازیابی کے لیے جب تک صحت یاب رہے زبردست کوششیں اور کاوشیں کیں، لیکن اب پیران سالی میں اس فیصلے کے سننے کے بعد بے حد غمگین اور افسردہ ہیں، وہ اب عوام سے اپیل کر رہے ہیں کہ مسلمان صبر اور تحمل سے کام لیں کسی طرح کا کوئی ری ایکشن (ردعمل) نہ دیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ہر امتحان کی ایک انتہا ہوتی ہے اور اس کا بھی کا ایک وقت ہوتا ہے، اس امتحان کی گھڑی میں ثابت قدم رہیں۔ زور، جبر اور ظلم کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے اس کے بعد امن و سکون آتا ہے۔
مزید پڑھیں:
علماء کے نزدیک بابری مسجد ملبے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
ملک میں ہر روز کورونا وائرس کے پچاس ہزار سے زائد معاملے سامنے آرہے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں اموات ہو رہی ہیں، کسی بھی طرح کے پروگرام اور عبادت گاہوں میں پانچ آدمی سے زیادہ کی اجازت نہیں ہے، عید اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر عید گاہ میں بھی نماز کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن ان سب کے باوجود خود اتنے بڑے پیمانے پر بھومی پوجن ہونے جا رہا ہے خود وزیراعظم نریندر مودی اس میں شامل ہونے جا رہے ہیں، ایسے میں صاف طور پر یہ نظر آرہا کہ کہیں نہ کہیں کورونا وائرس پر عوام اور خاص کے لئے الگ الگ قانون پیش کیا جا رہا ہے۔