کانگریس پارٹی کے سابق صدر راہل گاندھی کے ساتھ تصویر میں نظر آنے والے مزدور کنبے کا تعلق جھانسی شہر سے ہے۔ راہل گاندھی نے لاک ڈاؤن میں اس خاندان کو جھانسی پہنچانے کا انتظام کیا تھا۔
مزدور کنبے کے ایک فرد راج کمار جو ہریانہ سے اپنے اہل خانہ کو پیدل لے کر جھانسی جا رہے تھے۔ اس سفر میں ان کے ساتھ کنبے کے 12 اور مدھیہ پردیش کے 2 افراد بھی تھے۔
راہل گاندھی نے با ضابطہ 16 مئی کو ان تمام لوگوں کو گھر بھیجنے کا انتظام کیا تھا۔ ای ٹی وی بھارت نے اس کنبے کے ساتھ پیدل سفر کرنے اور راہل گاندھی سے ملنے اور پھر جھانسی پہنچنے تک کے حالات پر بات کی۔
راج کمار نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ہم اپنے گھر والوں کے ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ ہریانہ سے رخصت ہوکر وہ دہلی کہ نظام الدین سے قریب دو کلومیٹر آگے نکل گئے تھے۔ وہاں انہیں کچھ لوگوں نے بتایا کہ راہل گاندھی یہاں آکر ان سے بات کریں گے۔ جب ہم وہاں ٹھہرے تو راہول گاندھی تقریبا دس پندرہ منٹ کے بعد وہاں آئے۔ ہم سڑک کے کنارے بیٹھے تھے۔ وہ بھی وہاں آئے اور ہمارے ساتھ بیٹھ کر سے بات کی۔
راج کمار کہتے ہیں کہ راہل گاندھی نے ہم سے ہماری واپسی کی وجہ اور ہماری پریشانیوں کے بارے میں پوچھا۔ ہم نے انہیں بتایا کہ کھانا اور روپے نہ ہونے کی وجہ سے وہ مجبوری میں گھر لوٹ رہے ہیں۔ ہم چودہ افراد تھے اور انہوں نے ہمیں اپنی گاڑی سے ہمیں گھر بھیج دیا۔
راہل گاندھی سے مزدوروں کی ملاقات کے بعد مرکزی وزیر نرملا سیتارمن سابق صدر کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ضرورت مندوں کی مدد کے تعلق سے باتیں کہی تھیں، اس بیان پر راج کمار نے کہا کہ راہل گاندھی نے جس طرح ہم لوگوں کو یہاں بھیجنے کا انتظام کیا ایسے میں ہمیں تو یہی لگتا ہے کہ وہ ہمیں گھر تک چھوڑ کر گئے ہیں۔
خاندان کی ایک خاتون رام سکھی نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ہم مزدور ہیں۔ لاک ڈاؤن کے سبب کام کاج بند ہوگئے ہمارے پاس اپنی ضرورت کے لیے پیسے نہیں تھے ایسے میں گھر کے مالک نے کرایہ کا مطالبہ کیا ہم سب وہاں سے مجبورا نکل آئے دہلی کے نظام الدین تک پیدل آئے ۔ وہاں کچھ لوگوں نے ہمیں بتایا کہ راہل گاندھی ہم لوگوں سے ملنا چاہتے ہیں۔ ہم نے وہیں رک کر کر ان کا انتظار کیا کچھ دیر مین وہ ہمارے پاس آئے اور انہوں نے ہم سے ہماری مدد کرنے کی خواہش ظٓہر کی تو ہم نے ہاں کہا۔ انہوں نے ہمیں کار سے متھورا روانہ کیا۔ پھر وہاں سے بس کے ذریعے رانی پور بھجوایا۔
گفتگو میں رام سکھی کا مزید کہنا ہے کہ اب وہ ایک یا دو سال تک کام کی غرض سے باہر نہیں جائیں گی۔ گاؤں میں ہی جو مزدوری ملے گی وہی کریں گے۔ ہمارے لیے کھانے پینے اور کام کاج کا بندو بست ہو جائے یا کچھ کام شروع ہوجائے ہے تو ہم مزدوری کر لیں گے۔اگر کوئی ہماری مدد کرنا چاہے تو بس ہمیں یہی مدد چاہئے۔