جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی صدارت میں جموں میں منعقدہ انتظامی کونسل کی ایک میٹنگ میں بورڈ آف ریونیو کے ذریعے زرعی اراضی کو غیر زرعی مقاصد کے لیے تبدیل کرنے کے وضع کردہ ضوابط کو منظوری دی گئی ہے۔
ان نئے ضوابط کے تحت ضلع مجسٹریٹ کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ زمین کے استعمال میں زرعی سے غیر زرعی مقاصد میں تبدیلی کی اجازت دے سکتے ہیں۔ اس پالیسی کے منظر عام آنے کے بعد جموں و کشمیر میں عوامی وفود و سیاسی حلقوں میں تشویش کی لہر پیدا ہوئی ہیں۔
جموں کشمیر کسان کونسل کے صدر تجندر سنگھ وزیر نے کہا کہ وہ جموں کشمیر انتظامیہ کے اس فیصلے کے خلاف ہیں کیونکہ جموں کشمیر میں پہلے ہی زرعی زمین کم ہوتی جارہی ہیں تو اب جموں و کشمیر انتظامیہ پوری زمین کو صنعت میں تبدیل کرکے غریب زمینداروں کا حق چھینے کی کوشش کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کشمیر میں زعفران کھیت اب کم ہورہی ہے اور اب اس پولیسی سے جموں و کشمیر میں زرخیز زمین صنعتوں میں تبدیل ہوگی جو کہ ایک افسوس ناک ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس جموں وکشمیر انتظامیہ کو اس پالیسی کو واپس لینا ہوگا کیونکہ اس سے جمون و کشمیر میں زراعی شعبے کو جافی نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔
وہیں جموں مسل فرنٹ کے چیئرمین سجاد ظفر نے کہا کہ یہ پالیسی عوام مخالف ہے۔انہوں نے کہا کہ اس پالیسی سے جموں و کشمیر زرعی معیشت میں زبردست نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں زراعی زمین بڑھتے آبادی کے ساتھ کم ہوتی جارہی ہیں اور اس اڈر سے اس میں مزید کمی ہوگی۔
انہوں نے کہا جموں و کشمیر انتظامیہ کو غیر زراعی زمین کو صنعت و دیگر تعمیراتی کاموں کے لیے مختص رکھنی ہوگی نہ کہ زراعی زمین کو۔
انہوں نے گورنر انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ اس آڈر کو فوری طور پر واپس لیا جائے تاکہ ہیاں کی زراعی زمین کو بچا جا سکے ۔
اس نئی پالیس کے خلاف جموں و کشمیر کے مختلف رہنماؤں نے شدید نکتہ چینی کا اظہار کیا
جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ٹویٹ کر کے کہا ہے کہ جموں وکشمیر انتظامیہ کے ایسے فیصلوں سے جموں و کشمیر میں آبادیاتی تناسب کو بدلنے کی ایک کڑی ہے اور ترقی کے نام پر یہ ایک فریب ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس نئی پالیسی میں اب 15 سال کی ڈومیسائل سند کی بھی ضرورت نہیں پڑی گی
وہیں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے بھی ٹویٹ کر کے اس پالیسی کی مخالفت کی۔
انہوں نے کہا کہ زرعی اراضی کو غیر زرعی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے جموں وکشمیر انتطامیہ کی جانب سے نئی قوانین سے سنگین نتائج مرطب ہونگے۔انہوں نے کہا کہ اس حکم نامے نے جموں و کشمیر میں پھر سے آبادیاتی تبدیلی کے خدشات کو جنم دیا ہے۔
عمر عبداللہ نے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ غیر زرعی مقاصد کے لیے زرعی اراضی کے استعمال کی اجازت دینا جموں و کشمیر میں اصلاحات کے تابوت میں ایک اور کیل ہے۔ یہ تاریخی اصلاحات سے جموں و کشمیر میں اور غربت ہوگی اور اس سے جموں و کشمیر کے لوگوں کی غذائی تحفظ کو بھی خطرہ لاحق ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ زمین کے استعمال کے اس تبادلے کے لیے 15 سالہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کی بھی ضرورت نہیں ہے۔