جموں: مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی حکومت کی جانب سے جموں وکشمیر کو ریاستی درجے سے ہٹا کر یوٹی میں ضم کیے جانے کے اس تاریخی فیصلے کے تین برس مکمل ہوچکے ہیں۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے اعلان سے قبل ہی یہاں کے مین اسٹریم جماعتوں سے وابستہ رہنماؤں کے علاوہ دیگر قائدین کو یا تو جیلوں میں بند رکھا گیا یا تو انہیں گھروں میں ہی نظر بند کر دیا گیا تھا۔ جموں و کشمیر میں تعمیر ترقی اور نئے دور کا جو نعرہ مرکز میں برسراقتدار بی جے پی حکومت نے دیا تھا وہ زمینی سطح پر گزشتہ ایک برس میں دکھائی نہیں دیا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت نے انہیں مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ Three Years Of Article 370 Abrogation
ای ٹی وی بھارت نے جموں کے مشہور ریزیڈنسی روڈ پر جموں کے مقامی لوگوں کا ردعمل جاننے کی کوشش کی کہ 'ان تین برسوں میں جموں میں کیا کچھ بدلا خاص کر عوام کو کیا فائدہ ہوا۔ بیشتر مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ 'دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں کی معیشت ختم ہوئی ہے۔ اس سے جموں کے عوام کو کافی نقصان پہنچا ہے اور جو خواب بی جے پی نے لوگوں کو دکھائے تھے وہ حقیقت سے دور ہے۔ بیروزگار نوجوان سڑکوں پر اپنے مطالبات کو لیکر احتجاج کر رہے ہیں۔ تاہم روزگار کے وسائل موجود نہیں۔' Jammu People on Abrogation of Article 370
لوگوں کا مزید کہنا تھا کہ '5 اگست 2019 کے بعد سب سے بڑی تبدیلی کے طور پر جموں و کشمیر کو تباہ کیا گیا ہے۔ نوجوان نوکری کے لیے ترس رہے ہیں، تجارت پیشہ افراد انتظار کررہے ہیں کہ کب وہ مالی بدحالی سے باہر نکل کر کام شروع کریں اور جو دعویٰ بی جے پی کے حکمرانوں نے کیا تھا کہ 70 سالوں کی تباہی کی ہم بھرپائی کریں گے۔ دراصل جو 70 سالوں میں جموں کشمیر لداخ میں بنا تھا وہ برباد ہوگیا اور 5 اگست 2019 کو اس کی تباہی کا فیصلہ پارلیمنٹ میں کیا گیا تھا۔'انہوں نے کہا کہ اس دوران جمہوری اداروں کو کمزور کیا گیا اور نوجوانوں کا استحصال کیا گیا۔'
شیو سینا کے صدر منیش سہنی کے مطابق جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد جو امید تھی اس پر بی جے پی نے پانی پھیر دیا جو جموں کے عوام کے ساتھ دھوکہ دہی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مرکزی حکومت جموں وکشمیر کی تعمیر و ترقی میں اب اہم کردار ادا کرے نہ کہ اسے بربادی کی راہ پر گامزن کرے۔'
یہ بھی پڑھیں: Article 370 Abrogation: دفعہ 370 کی منسوخی کی آج تیسری برسی
واضح رہے کہ ملک کے آئین کے تحت ہی دفعہ 370 سے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل تھا۔ اس دفعہ کی رو سے سکیورٹی اور خارجہ امور کو چھوڑ کر دیگر تمام معاملات میں ریاست کو فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ آئین سے اس دفعہ کو حذف کر دینے کے ساتھ ہی کشمیر کو حاصل یہ خصوصی حیثیت ختم ہوگئی۔ جب کہ یونین ٹیریٹری ہو جانے کے بعد ریاستی عوام وزیر اعلیٰ کا انتخاب تو کرسکیں گے لیکن تمام تر اختیارات بھارتی صدر کی طرف سے نامزد کردہ گورنر کے پاس ہوں گے۔ اس وقت بھارت کے نو صوبے یونین ٹیریٹری کے تحت ہیں۔