انہوں نے کہا کہ آج ان لوگوں کو منہ توڑ جواب ملا ہے جو مذہب کے نام پر سماج کو توڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔
دیپکا نے کہا کہ یہ میرے لیے بھی ایک چلینج تھا اور میں نے اسے چلینج کے طور لے کر اس معاملے کو پٹھان کورٹ عدالت میں منتقل کرنے کی کوشش کی۔
واضح رہے کہ پٹھان کوٹ عدالت میں ٹرائل کے دوران متاثرہ بچی کے والد نے گزشتہ برس نومبر میں دیپکا سنگھ راجاوت کو اس کیس سے فارغ کردیا تھا۔
فارغ کیے جانے کی وجہ دیپکا راجاوت کی کیس میں مبینہ طور سے عدم دلچسپی بتائی گئی تھی۔ دیپکا راجاوت کا کیس سے ہٹانے جانے پر کہنا تھا کہ ان کے لیے پٹھان کوٹ عدالت میں ہر روز حاضر ہونا مشکل تھا۔
دیپکا راجاوت کو اس کیس کی بدولت غیرمعمولی شہرت ملی تھی اور انہیں گزشتہ ایک سال کے دوران متعدد ایوارڈ حاصل ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ انہیں متعدد کانفرنسوں میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔
سماجی کارکن طالبحسین نے بھی متاثرہ بچی کو دلانے کے لیے سرتوڑ جدوجہد کی۔
طالب حسین نے عدالت کے فیصلے پر کہا کہ لوگوں کو ملک کی عدالتوں اور قانون پر یقین ہے۔
انہوں نے کہا کہ کہ مجرم یا ملزم کا کوئی مذہب یا علاقہ نہیں۔
طالب حیسن کا کہنا تھا کہ فرقہ پرست طاقتیں چاہے جتنی بھی کوششیں کریں، بھارت کی جمہوریت، عدلیہ اور قانون پر ٹکی ہوئی ہے، اس ملک کے عوام کو ملک کی عدلیہ پر یقین ہے آج ملک کے اندر ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ لگا جو فرقہ پرستی کو ہوا دیتے تھے'۔
انہوں نے کہا: 'جو لوگ جموں میں فرقہ وارانہ فسادات برپا کرنا چاہتے ہیں، جو یہ کہتے تھے کہ پاکستان کے اشارے پر اس بچی کا قتل ہوا ہے، جو یہ کہہ رہے تھے کہ کسی سیاسی جماعت نے یہ سب کچھ کرایا، آج ان لوگوں کے خلاف بھی کیس درج ہونا چاہئے تاکہ اس ملک کی جمہوریت بچ سکے'۔
طالب حسین نے کہا کہ اس کیس کے تئیں اس وقت کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا رول بھی قابل ستائش ہے۔
انہوں نے کہا: 'میں لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ سوشل میڈیا یا دوسرے ذرائع سے ایسے کمنٹس نہ کریں جن سے کسی کے جذبات مجروح ہوتے ہوں کیونکہ کوئی بھی مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔