مرین تحصیل میں بہت سارے خاندان دست کاری کے پیشے سے جڑے ہوئے تھے، تاہم اب صورت حال بالکل بدل چکی ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ یہاں دست کاری کی صورتِ حال خستہ ہوتی چلی گئی۔ بلکہ یہ کہا جائے تو درست ہوگا کہ اب دست کاری یہاں ختم ہوتی جارہی ہے۔
اب دست کاری سے وابستہ لوگوں کو کام بھی نہیں ملتا اور کام ملتا ہے تو اس کا معاوضہ بھی انھیں بہت کم ملتا ہے۔
گذشتہ 200 برسوں سے یہاں کے باشندے اس پیشے سے منسلکتھے۔ پہلے لوگ یہاں شال اور کمبل کی بُنائی کرتے تھے، پوری ریاست میں یہاں کے بنائے ہوئے شال اور کمبل کی مانگ تھی۔
جو لوگ اس پیشے سے یہاں اب بھی وابستہہیں، ان میں رتن لال بھی ایک ہیں ،جن کے آبا واجداد اس پیشے سے جڑے ہوئے تھے اور وہ بھی اس پیشے سے ابتک منسلک ہیں ۔ حیران کن یہ ہے کہ انہیں اب بھی 20 روپےسے 50 روپےسے زائد مزدوری نہیں ملتی ہے۔
دست کاری سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت کی جانب سے بھی اس پیشے سے وابستہ لوگوں کو کسی بھی قسم کی مدد نہیں ملتی ہے۔ اس لیے اب اس پیشے سے نئی نسل دور ہوتی جارہی ہے۔
جب کہ حکومت دعویٰ کرتیہے کہ دست کاری سے وابستہ لوگوں کو ہر قسم کی امداد دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔
مرکزکی مودی حکومت بھی دست کاری کو فروغ دینے کے لیے اسکیل انڈیا کی مہم چلا رہی ہے، تاہم زمینی سطح پر اس دست کاری سے وابستہ لوگوں کے ساتھ لا پرواہی ہنوز جاری ہے۔