ETV Bharat / city

'دربار مو' کے خاتمے سے تجارت پیشہ افراد مایوس

author img

By

Published : Jul 2, 2021, 5:08 PM IST

جموں و کشمیر انتظامیہ کے حالیہ 'دربار مو' ملازمین کو جموں اور سرینگر میں رہائش گاہوں کو 21 دنوں تک خالی کرنے کا حکمنامہ صادر ہونے کے بعد جموں کے تاجر پیشہ افراد نے مایوسی کا اظہار کیا۔ تجارت پیشہ افراد کے مطابق جموں میں پہلے سے ہی ٹورزم سیکٹر مالی بدحالی سے گزر رہا ہے اور ایسے قدم سے لوگوں کے مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

فوٹو
فوٹو

لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ نے بدھ کو ایک حکمنامہ جاری کر کے جموں و کشمیر کی 149 سالہ قدیم روایت کو ختم کرتے ہوئے سیکریٹریٹ کے ملازمین کو جموں اور سرینگر میں الاٹ کی گئی سرکاری رہائش گاہوں کو 21 دنوں کے اندر خالی کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔

اس کے بعد سماجی رابطہ ویب سائٹ ٹویٹر، فیس بک، انسٹاگرام پر سماجی و سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنان کے ساتھ ساتھ تجارت پیشہ افراد کا ردعمل سامنے آیا۔

اس ضمن میں آج ای ٹی وی بھارت نے جموں کشمیر کے سرمائی دارالحکومت جموں کے مشہور ترین 'رگونات بازار' میں موجود تجارت پیشہ افراد سے دربار مو کے خاتمے پر ان کا ردعمل جاننے کی کوشش کی۔

'دربار مو' کے خاتمے سے تجارت پیشہ افراد مایوس

لوگوں نے حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ دربار مو کی منتقلی سے جموں شہر میں رونق ہوتی تھی۔ اس فیصلے سے تجارت پیشہ افراد سب سے زیادہ مایوس ہیں۔

جموں رگونات بازار ایسوسیشن کے صدر سوریندر مہاجن نے کہا کہ 50 سال سے وہ رگھوناتھ بازار میں کام کررہے ہیں اور دربار مو کی تاریخ 149 سال پورانی روایات تھی اور اب حکومت نے اسے ختم کرکے لوگوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دربار کی منتقلی سے جموں اور کشمیر کے بیچ بھائی چارہ محبت کا رشتہ بنا رہتا تھا۔ لہذا گورنمنٹ کا فیصلہ ایک مایوس کن فیصلہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جموں میں پہلے سے ہی ٹورزم سیکٹر بدحالی سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ اس فیصلے کو واپس لیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں:


ہم آپ کو بتا دیں کہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے 20 جون کو اعلان کیا تھا کہ دوبار مو کی منتقلی کو ختم کیے جانے سے جموں و کشمیر حکموت کو 2 سو کروڑ روپے کی بچت ہوگی اور اس رقم کو نوجوانوں کی فلاح و بہبود کی خاطر استعمال میں لایا جائے گا۔

واضح رہے کہ صدیوں سے سول سیکریٹریٹ جموں اور کشمیر صوبے میں دو شفٹوں میں کام کرتا تھا، 6 ماہ سرمائی داراحکومت جموں اور 6 ماہ گرمائی دارالحکومت سرینگر میں لیکن اب ای سسٹم رائج کیے جانے سے مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور اقتدار سے جاری 149 سالہ دربار مو کی قدیم روایت ختم ہو گئی۔

لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ نے بدھ کو ایک حکمنامہ جاری کر کے جموں و کشمیر کی 149 سالہ قدیم روایت کو ختم کرتے ہوئے سیکریٹریٹ کے ملازمین کو جموں اور سرینگر میں الاٹ کی گئی سرکاری رہائش گاہوں کو 21 دنوں کے اندر خالی کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔

اس کے بعد سماجی رابطہ ویب سائٹ ٹویٹر، فیس بک، انسٹاگرام پر سماجی و سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنان کے ساتھ ساتھ تجارت پیشہ افراد کا ردعمل سامنے آیا۔

اس ضمن میں آج ای ٹی وی بھارت نے جموں کشمیر کے سرمائی دارالحکومت جموں کے مشہور ترین 'رگونات بازار' میں موجود تجارت پیشہ افراد سے دربار مو کے خاتمے پر ان کا ردعمل جاننے کی کوشش کی۔

'دربار مو' کے خاتمے سے تجارت پیشہ افراد مایوس

لوگوں نے حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ دربار مو کی منتقلی سے جموں شہر میں رونق ہوتی تھی۔ اس فیصلے سے تجارت پیشہ افراد سب سے زیادہ مایوس ہیں۔

جموں رگونات بازار ایسوسیشن کے صدر سوریندر مہاجن نے کہا کہ 50 سال سے وہ رگھوناتھ بازار میں کام کررہے ہیں اور دربار مو کی تاریخ 149 سال پورانی روایات تھی اور اب حکومت نے اسے ختم کرکے لوگوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دربار کی منتقلی سے جموں اور کشمیر کے بیچ بھائی چارہ محبت کا رشتہ بنا رہتا تھا۔ لہذا گورنمنٹ کا فیصلہ ایک مایوس کن فیصلہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جموں میں پہلے سے ہی ٹورزم سیکٹر بدحالی سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ اس فیصلے کو واپس لیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں:


ہم آپ کو بتا دیں کہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے 20 جون کو اعلان کیا تھا کہ دوبار مو کی منتقلی کو ختم کیے جانے سے جموں و کشمیر حکموت کو 2 سو کروڑ روپے کی بچت ہوگی اور اس رقم کو نوجوانوں کی فلاح و بہبود کی خاطر استعمال میں لایا جائے گا۔

واضح رہے کہ صدیوں سے سول سیکریٹریٹ جموں اور کشمیر صوبے میں دو شفٹوں میں کام کرتا تھا، 6 ماہ سرمائی داراحکومت جموں اور 6 ماہ گرمائی دارالحکومت سرینگر میں لیکن اب ای سسٹم رائج کیے جانے سے مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور اقتدار سے جاری 149 سالہ دربار مو کی قدیم روایت ختم ہو گئی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.