گہلوت حکومت نے جمعرات کی رات 1 آئی اے ایس اور 14 آر اے ایس کا تبادلہ کیا۔ ریاست میں اب بڑی انتظامی تبدیلیوں کے آثار نمایاں ہیں۔ کووڈ-19 کو لے کر متعدد اضلاع کے کلکٹر کے کام سے متعلق شکایات کے بعد سکریٹریٹ راہداریوں میں یہ بحث چل رہی ہے کہ 30 مئی کو سی ایم اشوک گہلوت بڑے پیمانے پر آئی اے ایس اور آئی پی ایس افسران کا تبادلہ کرنے جارہے ہیں، جس میں ضلع کلکٹر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کے ساتھ سیکرٹریٹ میں تعینات سینئر افسران کے نام بھی شامل ہیں۔
بتادیں کہ کورونا جیسی عالمی وبا کے وقت جن افسران کے کام کا انداز اچھا نہیں ہے وہ 30 مئی کو یقینی طور پر تبادلے کی فہرست میں آسکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کووڈ 19 کے بارے میں سی ایم سطح پر کئے جانے والے فیصلوں کے بارے میں عہدیداروں کی طرف سے لیا گیا فیصلہ سنجیدگی سے نہ لینے پر معاملہ سی ایم او تک نہیں پہنچا تھا۔ اس کے بعد اس معاملے کے بارے میں تبادلہ خیال زوروں پر ہے کہ سی ایم او نے ان افسران کی فہرست تیار کی ہے جنہوں نے اس عالمی وبائی حالت کے دوران ذمہ داری قبول نہیں کی۔
اگر ذرائع پر یقین کیا جائے تو 30 مئی کے بعد متعدد آئی اے ایس، آئی پی ایس اور آر اے ایس افسران کے تبادلوں کی ایک بڑی فہرست سامنے آسکتی ہے۔ بہت سارے سینئر افسران اور 6 سے زیادہ ضلع کلکٹرز کے نام بھی سامنے آسکتے ہیں۔ اس پورے لاک ڈاؤن میں وزیر اعلی نے ان عہدیداروں کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کی ہے جن کی بہتر کارکردگی نہیں ہے۔
در حقیقت حال ہی میں لاک ڈاؤن کے دوران وزیر اعلیٰ راجستھان سمیت دیگر ریاستوں سے آنے والے مزدوروں کے مسائل حل کرنے کے لئے مقرر کردہ نوڈل افسران کے ورکنگ اسٹائل سے بھی ناراض ہیں۔
اس کے علاوہ بھی بہت سارے آئی اے ایس افسران ہیں جن کی شکایات بہت سے وزرا نے کی ہیں۔ وہیں وزیر اعلی کو لے کر بھی کہا جارہا ہے کہ وہ آئی پی ایس افسران کے ورکنگ اسٹائل سے ناراض ہیں۔ ایسی صورتحال میں یہ خیال کیا جارہا ہے کہ لاک ڈاؤن 4.0 کے خاتمے کے بعد سی ایم گہلوت ایک بار پھر بیوروکریسی کو ایک مضبوط پیغام دیں گے۔
لاک ڈاؤن کے دوران کوارنٹائن معاملات، راشن کی تقسیم میں بے ضابطگیاں اور کورونا انفیکشن روکنے میں ناکام 6 سے زائد افسران کا تبادلہ ہو سکتا ہے۔
حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود بہت سے اضلاع ایسے ہیں جہاں کورونا انفیکشن پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ حال ہی میں بدھ کے روز کلکٹرز کے ساتھ وزیر اعلی کی ویڈیو کانفرنسنگ کے دوران وزیراعلیٰ نے متعدد کلکٹرز کو سرزنش کیس۔ صرف یہی نہیں لاپرواہ کلکٹرز کی مسلسل شکایات پہنچ رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بہت سے کلکٹرز کو وزیراعلی کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔