راجستھان کے ضلع بھرت پور سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر ٹھاکر گاؤں کے کولی محلہ میں ویجنتی، کرشنا اور سومن ساتھ رہتی ہیں، تینوں بہنیں ہیں اور بڑے ارمان سے والد نے اس گھر میں تینوں کی شادی کرائی تھی لیکن تینوں بہنوں کے شوہر 6 ماہ کے عرصے کے دوران ایک کے بعد ایک سیلیکوسس مرض کے شکار ہو گئے۔ اِن کے سسر کی بھی اسی مرض سے موت ہوئی تھی۔ تینوں بہنوں کے دس بچے ہیں اور یہ تینوں مل کر مزدوری کرتی ہیں تاکہ بچوں اور خود کے پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئےگھر پر دو وقت چلہا جل سکے۔
اس گاؤں میں مرد کم اور خواتین اور بچے زیادہ ہیں۔ گندے کپڑوں میں لپٹی خواتین کے چہروں پر غربت اور غم کی تکلیف واضح طور پر نظر آتی ہے۔ روندھے گلے سے یہ کہتی ہین کہ سنا ضرور ہے کہ حکومت سیلیکوسس سے ہلاک کے لواحقین کو دو۔ دو لاکھ روپئے کی مدد دیتی ہے لیکن ہمیں رقم اب تک نہیں ملی ہے۔
کھیڑا ٹھاکر گاؤں کے سرپنچ مہندر ٹھاکر نے بتایا کہ 'وہ مزدوری کر اپنی زندگی گزارتی ہیں اور کوئی دوسرا وسائل نہں ہے، کچھ کی پینشین ہو گئی ہے، باقی کی نہیں ہوئی ہے۔''
دارصل سیلیکوسس کا مرض سانس میں گرد جانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مقامی لوگ پتھروں کا کام کرتے ہیں جس کے باعث پتھروں سے نکلنے والا گرد ان کے پھیپھڑوں تک پہنچتا ہے اور سانس لینے میں تکلیف ہونے لگتی ہے۔
اس گاؤں میں یہ کسی ایک خاندان کی حالت زار نہیں ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں میں 100 سے زائد مرد سیلی کوسس سے ہلاک ہوئے ہیں۔ سال 2018 میں 70، 2019 میں 136 جبکہ سال 2020 میں 92 سے زیادہ افراد کی اس مرض سے موت ہوئی ہے۔
یہاں کے کولی اور جاٹو محلے کے ہر گھر میں کوئی نہ کوئی بیوہ ہے۔ کچھ گھروں میں ایک بھی مرد نہیں ہے۔ اب لوگوں نے اس گاؤں کو بیواؤں کا گاؤں کہنا شروع کردیا ہے۔
بھرت پور کے سی ایم ایچ او ڈاکٹر کپتان سنگھ کے مطابق 'جتنے بھی مریض تھے، ان کی تصدیق ہو گئی ہے اور سرٹیفیکیٹ جاری کی جا چکی ہے، حکومت کے ذریعہ انہیں کچھ مدد دلائی جاتی ہے تاکہ وہ اس کام کو چھوڑ کر کچھ دوسرا روزگار شروع کر سکیں۔ ابھی حکومت کی جانب سے سیلیکوسیس مریضوں کے لئے 1500 روپئے کی پینشین شروع کی گئی ہے۔'
کئی بار ایسی صورتحال بھی پیش آتی ہے کہ سیلیکوسیس سے دم توڑ چکے شخص کے آخری رسومات ادا کر گھر لوٹنے پر محلے میں دوسرے شخص کی اس مرض سے موت ہونے کی اطلاع ملتی ہے۔ ضلع بھرت پور کے روداول، روپ واس، بیانا اور بھوساور علاقوں میں سیلیکوسیس کے سب سے زیادہ مریض ہیں۔ روداول علاقے کے اس گاؤں یعنی کھیڑا ٹھاکر میں سب سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ ان بیوہ خاتون کے دامن میں اتنا درد ہے کہ دل پتھر ہو چکا ہے، انسو سوکھ گئے ہیں لیکن جن پر سیلیکو سیس مرض کی روک تھام کی ذمہ داری ہے وہ شاید بے رحم ہو گئے ہیں۔