عالمِ اسلام کے تمام ملکوں سے اپنے سفراء کو فرانس سے واپس بلانے کی اپیل کے ساتھ پروفیسر واسع نے دنیا بھر کے مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ تمام جمہوری طریقوں کو اپناتے ہوئے احتجاج کرتے رہیں۔ انہوں نے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی بھی اپیل کی ہے۔
پروفیسر واسع نے اس تمہید کے ساتھ کہ فرانسیسی صدر بظاہر اہانتِ رسول کے ذریعے ساری دنیا کو ایک آزمائش اور بحران میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں جس کی انہیں قطعاً اجازت نہیں ہونی چاہیے کہا ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر کسی کو گالی دینے کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا اور مسلمان پیغمبر اسلام، تمام آسمانی نبیوں، پیغمبروں اور دیگر مذاہب کے پیشواؤں کی توہین گوارا نہیں کرتے۔
انہوں نے ہر طرح کے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اظہارِ رائے کی آزادی ہونی چاہئے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر آزادی کچھ پابندیوں کے دائرے میں رہ کر ہی ممکن ہوتی ہے۔ ہر شخص کو فضا میں چھڑی گھمانے کی پوری آزادی ہے لیکن یہ آزادی وہاں سے ختم ہو جاتی ہے جہاں سے دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے۔
پروفیسر اخترالواسع نے پاپائے روم پوپ فرانسس سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر ویٹکن میں دنیا بھر کے اہم مذہبی رہنماؤں جیسے آرک بشپ آف کینٹر بری، دلائی لاما، شیخ الازہر احمد الطیب، آیت اللہ سیستانی،مفتیئ اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز آل شیخ، شری شری روی شنکر، مولانا سید رابع حسنی ندوی اور اکال تخت کے جتھے دار سردار گیانی ہرپریت سنگھ کی ایک میٹنگ بلائیں تاکہ ایسے اقدامات وضع کئے جا سکیں کہ اس عالمی گاؤں میں کسی کو بھی کسی مذہب، مذہبی عقیدے اور مذہبی پیشواؤں کو برا کہنے کی نہ ہمت ہو نہ اجازت۔
اظہارِ رائے کی آزادی گالی دینے کی حد تک نہیں ہو سکتی: پروفیسر اخترالواسع
فرانس میں اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر اہانتِ رسول کی صدرِ مملکت کی مبینہ تائید و رہنمائی میں جاری مہم کی مشہور ماہرِاسلامیات اور مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے وائس چانسلر پدم شری پروفیسر اخترالواسع نے سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکومتِ ہند سے کہا ہے کہ فرانس میں اہانتِ رسول کے نام پر جو دہشت گردی اور مسلمانوں کی دل آزاری سامنے آئی ہے، وہ اس میں منصفانہ اور متوازن رویہ اپنائے اور بلاوجہ فرانسیسی حکومت کی ہمنوا نہ بنے۔
عالمِ اسلام کے تمام ملکوں سے اپنے سفراء کو فرانس سے واپس بلانے کی اپیل کے ساتھ پروفیسر واسع نے دنیا بھر کے مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ تمام جمہوری طریقوں کو اپناتے ہوئے احتجاج کرتے رہیں۔ انہوں نے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی بھی اپیل کی ہے۔
پروفیسر واسع نے اس تمہید کے ساتھ کہ فرانسیسی صدر بظاہر اہانتِ رسول کے ذریعے ساری دنیا کو ایک آزمائش اور بحران میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں جس کی انہیں قطعاً اجازت نہیں ہونی چاہیے کہا ہے کہ اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر کسی کو گالی دینے کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا اور مسلمان پیغمبر اسلام، تمام آسمانی نبیوں، پیغمبروں اور دیگر مذاہب کے پیشواؤں کی توہین گوارا نہیں کرتے۔
انہوں نے ہر طرح کے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اظہارِ رائے کی آزادی ہونی چاہئے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر آزادی کچھ پابندیوں کے دائرے میں رہ کر ہی ممکن ہوتی ہے۔ ہر شخص کو فضا میں چھڑی گھمانے کی پوری آزادی ہے لیکن یہ آزادی وہاں سے ختم ہو جاتی ہے جہاں سے دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے۔
پروفیسر اخترالواسع نے پاپائے روم پوپ فرانسس سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر ویٹکن میں دنیا بھر کے اہم مذہبی رہنماؤں جیسے آرک بشپ آف کینٹر بری، دلائی لاما، شیخ الازہر احمد الطیب، آیت اللہ سیستانی،مفتیئ اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزیز آل شیخ، شری شری روی شنکر، مولانا سید رابع حسنی ندوی اور اکال تخت کے جتھے دار سردار گیانی ہرپریت سنگھ کی ایک میٹنگ بلائیں تاکہ ایسے اقدامات وضع کئے جا سکیں کہ اس عالمی گاؤں میں کسی کو بھی کسی مذہب، مذہبی عقیدے اور مذہبی پیشواؤں کو برا کہنے کی نہ ہمت ہو نہ اجازت۔