ای ٹی وی بھارت کے ساتھ خصوصی بات چیت میں انہوں نے کہا کہ' انہیں ریاستی بجٹ سے کافی امیدیں وابستہ تھیں لیکن حکومت نے انہیں نظر انداز کیا۔ ریاستی بجٹ میں ان کے لیے کوئی اعلانات نہیں کیے گئے اور نہ ہی ان کی تنخواہوں میں کوئی اضافے کا اعلان کیا۔ ہو ہمیں کسی بھی صورت میں منظور نہیں'۔
انہوں نے کہا کہ' اسمبلی میں اقلیتی طبقے سے نو نمائندے ہونے کے باوجود ان کی نمائندگی نہیں ہوئی۔' انہوں نے گہلوت حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ' آئندہ بلدیاتی انتخابات میں کانگریس کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا'۔ انتخابات میں کانگریس کو پوری طرح سے بائیکاٹ کیا جائے گا'۔
انہوں نے کہا کہ' گہلوت حکومت نے ریاستی مدرسے کو پوری طرح نظر انداز کیا ان کے لیے بجٹ میں کوئی اعلانات نہیں کیے گئے۔ اقلیتوں کے لیے محض ایک مدرسہ ہی تو ہے جو انہیں تعلیم سے جوڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن حکومت اقلیتی تعلیمی ادارے کو بھی نظر انداز کررہی ہے جو قابل تشویش ہے'۔
انہوں نے کہا کہ' کانگریس حکومت اقلیتی طبقے کے تعلق سے خوش فہمی میں ہے کہ چاہیے وہ ان کے لیے کام کرے یا نہ کرے لیکن ان کا ووٹ کانگریس کو ہی جائے اس لیے وہ ہمارے مسائل کو نظر انداز کررہے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں کافی عرصہ سے یہ کہا جارہا ہے کہ آپ کو مستقل کیا جائے گا لیکن ابھی تک ہمیں مستقل نہیں کیا گیا۔ ہمارے تنخواہوں میں اضافے کی امید تھی لیکن اس پر بھی کوئی اقدامات نہیں کیا گیا۔'
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اگر ان کے تنخواہ میں اضافہ نہیں کیا گیا تو وہ سڑکوں پر اتریں گے اور ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کریں گے'۔ اس سے قبل بھی مدرسہ پیر ٹیچروں نے گذشتہ آٹھ مارچ کو احتجاجی مظاہرہ کرکے مستقل اور تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کرچکے ہیں'۔
پیر ٹیچروں کا کہنا ہے کہ' گہلوت حکومت کا چہرہ سامنے آگیا ہے۔
واضح رہے کہ راجستھان میں 34 سو کے قریب مدرسے ہیں اور ان میں پڑھانے والے پیر ٹیچرز کی تعداد سات ہزار کے قریب ہے یہ تمام اساتذہ مستقل کرائے جانے کا مطالبہ کررہے ہیں'۔