ان میں پلاسٹر آف پیرس کی تیار کردہ مورتیاں زائد ہیں، اور لوگ اسے کثیر تعداد میں خرید رہے ہیں مگر مذکورہ مورتیاں ماحولیات کے لیے نقصان دہ بتائی جاتی ہیں۔ آبی آلودگی اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے کئی برسوں سے ایک خاص مہم جاری ہے، بھارت میں گزشتہ ایک دہے سے اس تہوار میں پلاسٹر آف پیرس کی مورتیوں کے بجائے مٹی سے بنی مورتیوں کے استعمال کی عوام سے اپیل کی جارہی ہے لیکن اس اپیل کا عوام پر کوئی اثر ہوتا نظر نہیں آتا۔
دوسری جانب مارکٹ میں رنگین مورتیوں کی بھرمار ہے اورعوام مٹی کی مورتی کو خریدنے کے بجائے اسے خریدنے کو ترجیح دے رہی ہے۔انتظامیہ اور متعلقہ محکمہ آلودگی کو قابو میں کرنے کے دعوے کرتا آرہا ہے ہے مگر مارکٹ میں آلودہ مورتیوں کی فروخت پر پابندی عائد کرنے کا اقدام نہیں کیا جارہا ہے۔ اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی کاروائی کی جارہی ہے۔اس سلسلہ میں گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے کمشنر لوکیش کمار سے جب اس سلسلے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ جی ایچ ایم سی اس سال مختلف اداروں اور رضاکارانہ تنظیموں کے اشتراک سے ایک لاکھ مٹی کی مورتیوں کا منصوبہ رکھتی ہے۔