خستہ حالی کا شکار اس اسکولی عمارت میں کسی زمانے میں سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین نے تعلیم حاصل کیا تھا۔
معیاری تعلیم کی غرض سے 1886 میں آصف جاہی نے اس اسکول کی تعمیر کی تھی۔
اس اسکول سے نامور شخصیات نے اپنی تعلیم مکمل کی جو آگے چل کر ملک اور بیرون ممالک میں اعلی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔
تاہم برسوں سے دھوپ کی تپش اور برسات کی مار سہتے سہتے اب اس خوبصورت عمارت کی چھتیں اور در و دیوار منہدم ہو چکے ہیں اور اس کے قیمتی باقیات کا سرقہ ہوچکا ھے۔
تعمیر کے ڈیڑھ سو برس مکمل ہونے پر اسکول کی اس عمارت کو محکمہ آثارِقدیمہ کی فہرست میں شامل ہونا چاہیے تھا لیکن محکمہ آثارقدیمہ کی اس عمارت پر نظر نہیں پڑی، اور جب ای ٹی وی بھارت نے محکمہ آثارِقدیمہ سے بات کی تو انہوں نے اس کا ٹھیکرا میونسپل انتظامیہ کے سر تھوپا۔
اس اسکول کے سابق طالب علم رحمان خان نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ :' حیدرآباد جیسے شہر میں تاریخی عمارات کثیر تعداد میں موجود ہیں، اتنی قدیم عمارت کی جانب توجہ نہ دینا محکمے کی لاپرواہی کو ظاہر کرتا ہے'۔
انہوں نے حکومت سے اس جانب توجہ دینے کا مطالبہ کیا۔
اگر متعلقہ محکمہ اس عمارت پر توجہ دیتے ہوئے از سر نو تزئین کاری کرے تو یہ عمارت مزید چند برسوں تک قائم رہ سکتی ہے۔