دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر قریب سو سال سے جاری تبلیغی جماعت کا نظام ہریانہ کے میوات سے شروع ہوا تھا۔ خطہ میوات کئی صدی سے مسلم اکثریتی رہا ہے لیکن تعلیمی اعتبار سے یہ کافی پسماندہ بھی رہا۔ تبلیغی جماعت کے بانی حضرت جی مولانا الیاس کے والد مولانا اسماعیل نے نظام الدین دہلی میں میواتیوں کو دینی تعلیم سے جوڑنے کی کوشش کی۔ حضرت جی مولانا الیاس نے 1920 میں میوات کی دینی بیداری کا جائزہ لیا اور پھر سن 1922 میں شہر نوح میں ایک بڑے مدرسے کی بنیاد ڈالی۔
مدرسہ کے صدر مدرس مفتی زاہد حسین نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ابتدا میں میواتیوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے مدرسہ بنایا گیا تھا لیکن طلبہ، والدین کی دلچسپی اور نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے مدرسہ میں حاضر نہیں ہوتے تھے۔ اس لئے بڑوں کی ذہن سازی کے لئے جماعت کی شکل میں گاؤں گاؤں جاکر دینی محنت کی گئی اور بڑوں میں تحریک ایمان، چلتا پھرتا مدرسہ جسے آج دعوت و تبلیغ، تبلیغی جماعت کہا جاتا ہے کا سلسلہ حضرت جی مولانا الیاس نے شروع کیا۔
اس طرح سن 1925 میں گاؤں فیروز پور نمک کی بڑی مسجد سے گھاسیڑا گاؤں کے لئے پہلی تبلیغی جماعت نکالی گئی۔
فیروز نمک میں واقع تاریخی مسجد 1881 میں تعمیر کی گئی تھی۔ جس کی دوبارہ تعمیر 1966 میں ہوئی اور تیسری از سر نو تعمیر حال ہی میں کی گئی ہے۔
فیروزپور نمک گاؤں کے رہنے والے حاجی محمد ارشد نے بتایا نے حضرت جی اسی مسجد میں مسجد کے منارے سے ٹیک لگا کر لوگوں میں دینی بیداری کی روح پھونکنے کا کام کرتے تھے۔
86 سالہ بزرگ نور محمد نے بتایا کہ اسی مسجد سے پہلی جماعت گھاسیڑا گاؤں کیلئے نکالی گئی تھی۔
مفتی زاہد حسین نے بتایا کہ حضرت جی میوات کی تعلیمی بیداری کیلئے انتہائی فکر مند تھے اور خط و کتابت کے ذریعہ ہمیشہ مدرسہ کے احوال سے واقف رہتے، اس طرح مرکز نظام الدین اور میوات کو تبلیغی جماعت کا اولین قلعہ مانا جاتا ہے۔ جماعت کی بنیاد کے وقت کے سینکڑوں خطوط، کار گزاری اور دستاویزات آج بھی بڑا مدرسہ معین الاسلام نوح میں محفوظ ہیں۔
تبلیغی نظام آج پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ لاکھوں افراد ہمہ وقت جماعت میں نکلے ہوتے ہیں اور دنیا کی تمام مصروفیات سے بے خبر نہایت سادگی کے ساتھ دینی محنت میں لگے ہوتے ہیں۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے ابتدائی دنوں میں تبلیغی جماعت پر سنگین الزامات عائد کئے گئے تھے لیکن الزامات بے بنیاد ٹہرے اور عدالتوں نے تمام الزامات سے جماعت کو بری کر دیا۔ اس مشکل دور میں میوات اور تبلیغی جماعت کا مضبوط رشتہ ایک بار پھر دکھائی دیا۔ میوات کے لوگوں نے جماعت کے افراد کی بے لوث خدمت کی اور جب گھر جانے کا وقت آیا تو میوات سے محبت میں آنسو رواں تھے۔
بحر حال تبلیغی جماعت سے اسی تاریخی پس منظر کے چلتے میوات کو پوری دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔