محکمہ تعلیم کے ذریعے بہار کے تمام ہائی اسکولوں سے اردو کو خارج کرنے کی سازش کے خلاف روز بروز آواز بلند ہوتی جارہی ہے ۔ متنازعہ سرکولر سے عام مسلمانوں میں اضطرابی کیفیت پائی جارہی ہے، وہیں اب حزب اختلاف کے رہنما بھی حکومت پر شدید نکتہ چینی کھل کر کر رہے ہیں۔
حزب اختلاف کے رہنماؤں نے ریاستی حکومت کو اقلیتی مخالف حکومت قرار دیا ہے، ساتھ ہی وزیراعلی نتیش کمار پر آر ایس ایس کے ایجنڈے پر کام کرنے کا الزام لگایا ہے۔ دراصل یہ تنازعہ محکمہ تعلیم کے ایک سرکولر جس کا نمبر 799 ہے اس کے جاری ہونے کے بعد پیدا ہوا ہے۔
سرکولر کے مطابق اب ہائی اسکولوں میں اردو لازمی ہونے کے بجائے اختیاری مضمون کے طور پر کر دیا گیا ہے۔ اس سرکولر کے جاری ہونے کے بعد نہ صرف عام مسلمان اور اپوزیشن کے رہنماء اسکی مخالفت کر رہے ہیں بلکہ حکمراں جماعت کے مسلم رہنماؤں نے بھی اپنی حکومت سے سرکولر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
ہندوستانی عوام مورچہ سیکولر کے ضلع صدر ڈاکٹر صبغت اللہ خان عرف ٹو ٹو خان نے ای ٹی وی اردو بھارت سے کہا کہ جیتن رام مانجھی نے وزیراعلی رہتے ہوئے 34 فیصلے لیے تھے، جس میں کئی فیصلے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کو لیکر تھے۔ تاہم ان کی حکومت جاتے ہی نتیش کمار نے ان فیصلوں کو رد کر دیا جو مسلمانوں سے جڑے تھے۔
انہوں نے محکمہ تعلیم کے ذریعے بہار کے تمام ہائی اسکولوں سے اردو کو خارج کرنے کو سازش بتاتے ہوئے کہا کہ اصل میں یہ وزیر اعلی نتیش کمار کے فیصلے پر ہوا ہے۔ حکومت کے ذریعے پندرہ مئی کو جاری کیا گیا سرکولر نمبر 799 نہ صرف بے حد متنازعہ ہے بلکہ ریاست کی دوسری زبان اردو مخالف بھی ہے۔گویا کہ یہ سرکولر اردو کو ختم کرنے کی سازش ہی نہیں بلکہ ختم کرنے کا فیصلہ ہے۔ کیونکہ جب اردو کو شامل کرنے کی لازمیت ختم ہوگی تو اسکولوں میں اردو اساتذہ رکھنے کی بھی لازمیت ختم ہو جائیگی۔نیز یہ بھی کہا کہ ماضی میں بھی جس طرح سے کئی مخالف فیصلے لیکر اقلیتوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے، اسی طرح اس مرتبہ بھی کیا گیا ہے۔
محکمہ تعلیم کے متعصب افسران بہار کے ہائی اسکولوں کے نصاب سے اردو زبان کو ختم کر دینے کی سازش کر رہے ہیں جو بہت افسوسناک اور قابل مزمت ہے، حکومت اسے فوری طور سے واپس لے۔
اس سرکولر کے نفاذ پر حکمراں جماعت جے ڈی یو کے جنرل سکریٹری وارث علی خان نے حکومت کا بچاؤ کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے نافذ کیے گئے منصوبوں کو گنوایا۔ حالانکہ اس سرکولر پر ان کا بھی واضح رائے یہی ہے کہ اس سے اردو زبان کو خطرہ پیدا ہوگا۔ اسکے لیے انہوں نے محکمہ تعلیم کے وزیر کرشنندن پرساد ورما سے بھی گفتگو کرنے کی بات بتائی اور کہا کہ اس سرکولر کو رد کرنے کے لیے وزیراعلی سے گزارش کریں گے۔