ETV Bharat / city

ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیا کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کی عرضی پر کوئی فیصلہ نہیں

author img

By

Published : Oct 29, 2020, 9:08 PM IST

کورونا وائرس کو مرکز نظام الدین سے جوڑ کر ہندوؤں و مسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیا کے خلاف سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن پر آج سپریم کورٹ نے سماعت کی، جس میں یونین آف انڈیا کے وکیل نے عدالت سے حلف نامہ داخل کرنے کے لیے مزید وقت طلب کیا، جسے منظور کرتے ہوئے عدالت نے اپنی کاروائی ملتوی کردی۔

Maulana Syed Arshad Madani President of Jamiat Ulema-i-Hind
مولانا سید ارشدمدنی صدر جمعیۃ علماء ہند

کورونا وائرس کو مرکز نظام الدین سے جوڑ کر تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں اور مسلمانوں کی شبیہ کو داغدار کرنے اور ہندوؤں و مسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیا کے خلاف مولانا سید ارشدمدنی صدر جمعیۃ علماء ہند کی ہدایت پر سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن پر آج سماعت عمل میں آئی۔

سماعت کے دوران یونین آف انڈیا کے وکیل نے عدالت سے حلف نامہ داخل کرنے کے لیے مزید وقت طلب کیا، جسے منظور کرتے ہوئے عدالت نے اپنی کاروائی ملتوی کردی۔

گذشتہ سماعت پر چیف جسٹس آف انڈیا نے جونیئر افسر کی جانب سے حلف نامہ داخل کرنے پر برہمی کا اظہار کیا تھا جس کے بعد سالیسٹر جنرل آف انڈیا ایڈوکیٹ تشار مہتا نے عدالت کو یقین دلایا تھا کہ حلف نامہ سینئر افسر کی جانب سے داخل کیا جائے گا اور حلف نامہ ان کی زیر نگرانی تیار کیا جائے گا۔

واضح ہوکہ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن میں جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی مدعی ہیں آج چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڈے، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی راما سبرامنیم کے روبرو سماعت عمل میں آئی۔

ایڈوکیٹ اعجاز مقبول نے عدالت کو بتایا کہ آج یونین آف انڈیا کو حلف نامہ داخل کرنا تھا لیکن انہوں نے داخل نہیں کیا، چونکہ عدالت نے یونین آف انڈیا کو ایک ہفتہ کی مہلت دے دی ہے لہذا ایک ہفتہ کے بعد اس معاملے کی سماعت ہوسکے، جس کے لیے عدالت کو رجسٹرار کو حکم دینا چاہئے جس پر چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ اعجاز مقبول کو یقین دلایا کہ اس معاملے کی جلداز جلد سماعت کے لیے عدالت آرڈر جاری کرے گی۔

گذشتہ سماعت پر جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے پیش ہوئے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے عدالت کو سیکڑوں خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھاکہ کورونا وباء کی آڑ لیکر کس طرح تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کو بدنام کیا گیا تھا، لیکن مرکزی حکومت کے حلف نامہ سے ایسا لگتا ہے کہ گویا عرضی گذار (جمعیۃ علماء ہند) نے پٹیشن داخل کرکے آزادی اظہار رائے پر پابندی لگانے کی کوشش کی ہے جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے، اس کے برخلاف ہماری عدالت سے گذارش ہے کہ تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کو بدنام کرنے والے ٹی وی چینلوں پر پابندی لگائی جائے۔

اس معاملے کی سماعت بذریعہ ویڈیو کانفرنسنگ ہوئی جس کے دوران ایڈوکیٹ اعجاز مقبول اور ان کے معاونین وکلاء محمد طاہر حکیم، شاہد ندیم، اکرتی چوبے، سارہ حق، نہیا سانگوان، محمد عیسی حکیم موجود تھے۔

آج کی قانونی پیش رفت پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ اس معاملہ میں حلف نامہ داخل کرنے میں حکومت کا ٹال مٹول یہ ظاہر کرتا ہے کہ متعصب میڈیا ملک میں جو کچھ کر رہا ہے اس کی اسے ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں ہے، ہم اس معاملہ میں جلد ازجلد کسی فیصلہ کے منتظر ہیں تاکہ ملک کے غیر ذمہ دار میڈیا کو کولگام لگائی جاسکے اور اپنی حرکتوں سے ملک کے امن و اتحاد میں وہ جس طرح آگ لگانے کی مسلسل کوششیں کررہے ہیں اس سے ان کو باز رکھا جاسکے، مگر افسوس موجودہ حکومت معاملہ کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے بھی غیر ذمہ دارانہ رویہ کا مظاہرہ کررہی ہے۔

مولانا مدنی نے مزید کہا کہ اس سے زیادہ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کے ذریعہ داخل عرضی کو اظہار رائے کی آزادی میں خلل ڈالنے کی کوشش قرار دیا جارہا ہے۔

انہوں نے وضاحت کی ہم پہلے ہی یہ بات صاف کرچکے ہیں کہ ہم اظہار رائے کی آزادی کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس کے حامی ہیں لیکن اس آزادی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ اس سے کسی مذہب یا مذہبی شخصیات کی توہین اور کسی قوم یا فردکی دلآزاری کی جائے، اظہار رائے کی آزادی کی بھی کچھ حدیں ہیں اور اگر کوئی شخص ان حدوں کو پار کرتا ہے تو اس کی مخالفت اور مذمت دونوں ہونی چاہئے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ پچھلے دنوں فرانس میں جو کچھ ہوا اور اب بھی ہورہا ہے اسے بھی کچھ لوگ اظہار رائے کی آزادی سے تعبیر کررہے ہیں اور اس کی حمایت بھی کررہے ہیں، لیکن کیا ایک مہذب معاشرہ میں اس طرح کے رویہ کو درست ٹھہرایا جاسکتا ہے؟

انہوں نے یہ بھی کہا کہ دنیا کی جتنی بھی مذہبی اورمقدس شخصیات ہیں ان سب کا احترام کیا جانا چاہئے خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہوہمیں ہمارے نبی کریم ﷺ نے یہ تعلیم دی ہے کہ کسی بھی مذہب اور کسی بھی مذہبی شخصیت کو برامت کہو، پوری دنیا کے مسلمان اس نصیحت پر عمل پیراہیں کسی بھی مذہب کاماننے والا یہ دعویٰ نہیں کرسکتاکہ کسی مسلمان نے اس کے مذہب کی کسی مذہبی شخصیت کی کبھی گستاخی کی ہویا اس کا مضحکہ اڑایا ہو،۔

انہوں نے فرانس کے صدر کی طرف سے گستاخانہ خاکوں کی عمومی اشاعت اور اس ناپاک حرکت کی حمایت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ناقابل برداشت عمل ہے، مزیدبرآں ایسے لوگوں کی حمایت کرناجو آزادی رائے کی بنیادپر کروڑوں لوگوں کی ہی نہیں بلکہ اربوں لوگوں کی ناقابل تحمل تکلیف کا سبب بنیں، جوکہ نہایت دلآزاری کا سبب ہی نہیں بلکہ ایک طرح کی دہشت گردی ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے جو دوسرے کسی بھی مذہب کے مقدس شخصیات کی استہزاکو ہرگز پسند نہیں کرتااور تمام مذہبی طبقات کے جذبات کاپاس ولحاظ رکھتاہے، مگر دنیاکی کچھ طاقتیں باربار مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہیں اوردلآزاری کرتی ہیں یہ بات قطعا ناقابل قبول ہے، ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں.

آخرمیں مولانا مدنی نے کہا کہ کوئی بھی مسلمان اپنے محبوب، پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان میں ادنی سی گستاخی بھی برداشت نہیں کرسکتاتاہم تمام مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ جذباتیت سے اوپر اٹھ کر حسن تدبیر اور تحمل سے اس کا مقابلہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بہت افسوس ہے کہ ہمارے ملک کی حکومت نے فرانس کے موقف کی تائید کی ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھوکرمارکر دلوں کو ٹھیس پہنچانے والے قانون اور جذبے کی تائید کررہی ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ خوداپنے ملک کے اندرحکومت کا رخ کیا ہے اور وہ بیس کروڑ مسلمانوں کے سلسلہ میں کیا نظریہ رکھتی ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ فرانس کے موقف کی تائید کے مقابلہ خاموش رہنا زیادہ بہتر ہوتا۔

کورونا وائرس کو مرکز نظام الدین سے جوڑ کر تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں اور مسلمانوں کی شبیہ کو داغدار کرنے اور ہندوؤں و مسلمانوں کے درمیان منافرت پھیلانے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیا کے خلاف مولانا سید ارشدمدنی صدر جمعیۃ علماء ہند کی ہدایت پر سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن پر آج سماعت عمل میں آئی۔

سماعت کے دوران یونین آف انڈیا کے وکیل نے عدالت سے حلف نامہ داخل کرنے کے لیے مزید وقت طلب کیا، جسے منظور کرتے ہوئے عدالت نے اپنی کاروائی ملتوی کردی۔

گذشتہ سماعت پر چیف جسٹس آف انڈیا نے جونیئر افسر کی جانب سے حلف نامہ داخل کرنے پر برہمی کا اظہار کیا تھا جس کے بعد سالیسٹر جنرل آف انڈیا ایڈوکیٹ تشار مہتا نے عدالت کو یقین دلایا تھا کہ حلف نامہ سینئر افسر کی جانب سے داخل کیا جائے گا اور حلف نامہ ان کی زیر نگرانی تیار کیا جائے گا۔

واضح ہوکہ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن میں جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی مدعی ہیں آج چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڈے، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی راما سبرامنیم کے روبرو سماعت عمل میں آئی۔

ایڈوکیٹ اعجاز مقبول نے عدالت کو بتایا کہ آج یونین آف انڈیا کو حلف نامہ داخل کرنا تھا لیکن انہوں نے داخل نہیں کیا، چونکہ عدالت نے یونین آف انڈیا کو ایک ہفتہ کی مہلت دے دی ہے لہذا ایک ہفتہ کے بعد اس معاملے کی سماعت ہوسکے، جس کے لیے عدالت کو رجسٹرار کو حکم دینا چاہئے جس پر چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ اعجاز مقبول کو یقین دلایا کہ اس معاملے کی جلداز جلد سماعت کے لیے عدالت آرڈر جاری کرے گی۔

گذشتہ سماعت پر جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے پیش ہوئے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے عدالت کو سیکڑوں خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھاکہ کورونا وباء کی آڑ لیکر کس طرح تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کو بدنام کیا گیا تھا، لیکن مرکزی حکومت کے حلف نامہ سے ایسا لگتا ہے کہ گویا عرضی گذار (جمعیۃ علماء ہند) نے پٹیشن داخل کرکے آزادی اظہار رائے پر پابندی لگانے کی کوشش کی ہے جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے، اس کے برخلاف ہماری عدالت سے گذارش ہے کہ تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کو بدنام کرنے والے ٹی وی چینلوں پر پابندی لگائی جائے۔

اس معاملے کی سماعت بذریعہ ویڈیو کانفرنسنگ ہوئی جس کے دوران ایڈوکیٹ اعجاز مقبول اور ان کے معاونین وکلاء محمد طاہر حکیم، شاہد ندیم، اکرتی چوبے، سارہ حق، نہیا سانگوان، محمد عیسی حکیم موجود تھے۔

آج کی قانونی پیش رفت پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ اس معاملہ میں حلف نامہ داخل کرنے میں حکومت کا ٹال مٹول یہ ظاہر کرتا ہے کہ متعصب میڈیا ملک میں جو کچھ کر رہا ہے اس کی اسے ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں ہے، ہم اس معاملہ میں جلد ازجلد کسی فیصلہ کے منتظر ہیں تاکہ ملک کے غیر ذمہ دار میڈیا کو کولگام لگائی جاسکے اور اپنی حرکتوں سے ملک کے امن و اتحاد میں وہ جس طرح آگ لگانے کی مسلسل کوششیں کررہے ہیں اس سے ان کو باز رکھا جاسکے، مگر افسوس موجودہ حکومت معاملہ کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے بھی غیر ذمہ دارانہ رویہ کا مظاہرہ کررہی ہے۔

مولانا مدنی نے مزید کہا کہ اس سے زیادہ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کے ذریعہ داخل عرضی کو اظہار رائے کی آزادی میں خلل ڈالنے کی کوشش قرار دیا جارہا ہے۔

انہوں نے وضاحت کی ہم پہلے ہی یہ بات صاف کرچکے ہیں کہ ہم اظہار رائے کی آزادی کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس کے حامی ہیں لیکن اس آزادی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ اس سے کسی مذہب یا مذہبی شخصیات کی توہین اور کسی قوم یا فردکی دلآزاری کی جائے، اظہار رائے کی آزادی کی بھی کچھ حدیں ہیں اور اگر کوئی شخص ان حدوں کو پار کرتا ہے تو اس کی مخالفت اور مذمت دونوں ہونی چاہئے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ پچھلے دنوں فرانس میں جو کچھ ہوا اور اب بھی ہورہا ہے اسے بھی کچھ لوگ اظہار رائے کی آزادی سے تعبیر کررہے ہیں اور اس کی حمایت بھی کررہے ہیں، لیکن کیا ایک مہذب معاشرہ میں اس طرح کے رویہ کو درست ٹھہرایا جاسکتا ہے؟

انہوں نے یہ بھی کہا کہ دنیا کی جتنی بھی مذہبی اورمقدس شخصیات ہیں ان سب کا احترام کیا جانا چاہئے خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہوہمیں ہمارے نبی کریم ﷺ نے یہ تعلیم دی ہے کہ کسی بھی مذہب اور کسی بھی مذہبی شخصیت کو برامت کہو، پوری دنیا کے مسلمان اس نصیحت پر عمل پیراہیں کسی بھی مذہب کاماننے والا یہ دعویٰ نہیں کرسکتاکہ کسی مسلمان نے اس کے مذہب کی کسی مذہبی شخصیت کی کبھی گستاخی کی ہویا اس کا مضحکہ اڑایا ہو،۔

انہوں نے فرانس کے صدر کی طرف سے گستاخانہ خاکوں کی عمومی اشاعت اور اس ناپاک حرکت کی حمایت کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ناقابل برداشت عمل ہے، مزیدبرآں ایسے لوگوں کی حمایت کرناجو آزادی رائے کی بنیادپر کروڑوں لوگوں کی ہی نہیں بلکہ اربوں لوگوں کی ناقابل تحمل تکلیف کا سبب بنیں، جوکہ نہایت دلآزاری کا سبب ہی نہیں بلکہ ایک طرح کی دہشت گردی ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے جو دوسرے کسی بھی مذہب کے مقدس شخصیات کی استہزاکو ہرگز پسند نہیں کرتااور تمام مذہبی طبقات کے جذبات کاپاس ولحاظ رکھتاہے، مگر دنیاکی کچھ طاقتیں باربار مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہیں اوردلآزاری کرتی ہیں یہ بات قطعا ناقابل قبول ہے، ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں.

آخرمیں مولانا مدنی نے کہا کہ کوئی بھی مسلمان اپنے محبوب، پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان میں ادنی سی گستاخی بھی برداشت نہیں کرسکتاتاہم تمام مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ جذباتیت سے اوپر اٹھ کر حسن تدبیر اور تحمل سے اس کا مقابلہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں بہت افسوس ہے کہ ہمارے ملک کی حکومت نے فرانس کے موقف کی تائید کی ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھوکرمارکر دلوں کو ٹھیس پہنچانے والے قانون اور جذبے کی تائید کررہی ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ خوداپنے ملک کے اندرحکومت کا رخ کیا ہے اور وہ بیس کروڑ مسلمانوں کے سلسلہ میں کیا نظریہ رکھتی ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ فرانس کے موقف کی تائید کے مقابلہ خاموش رہنا زیادہ بہتر ہوتا۔

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.