ریختہ کے ذریعہ ہی اردو کا جشن بھی بڑے پیمانے پر منایا جاتا ہے، جس کا شُہرہ اسکرین پر گڑنے والی ہر نگاہ تک رسائی کر چکا ہے، لیکن اس کے پیچھے جو شخص ہے، وہ پیشے سے ایک تاجر ہے تاہم اردو سے عشق اور محبت کا دَم بھی بھرتا ہے۔
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
کاغذ، قلم اور دوات کے عہد سے انٹرنیٹ کی ایجاد تک، اردو نے اپنا جادو کبھی نہیں کھویا۔ تقسیم ہند کے بعد یہ شکوہ تو ہوا۔
اَپنے گھر میں اَجنبی اردو ہے آج
اہلِ اردو کاش رکھ لیں اِس کی لاج
لیکن یہ شکایت بھی اس وقت کافور ہوگئی جب ہزاروں اجنبی لوگ اردو کے حِصارِ محبت میں آنے لگے۔ انہیں میں ایک نام مارواڑی تاجر سنجیو صراف کا ہے، جو کبھی نوئیڈا کے ایک کارپوریٹ دفتر میں پالیسٹر پینٹنگ کی تجارت کی توسیع میں مصروف رہتا تھا، مگر اردو سیکھنے کے تجربے نے اسے اردو سے اتنا قریب کر دیا کہ اب انہیں کے کام 'ریختہ' کو نئے عہد کا کارنامہ کہا جاتا ہے۔
ریختہ ایک ویب سائٹ ہے، جسے اردو ادب کا 'ای موسوعہ' بھی کہا جاتا ہے، کو تشکیل پانے میں برسوں لگ گئے۔ اس ویب سائٹ میں اردو شاعروں کے دواوین اور اردو شاعری کا قریب قریب پورا سرمایہ شامل ہے۔ اردو کی اس بے لوث خدمت نے شبہات بھی پیدا کئے۔ یہ سوال بھی اٹھے کہ کہیں اردو کا کمرشیلائزیشن تو نہیں ہو رہا؟ کہیں اردوکے روایتی پرستاروں کو دست نگر تو نہیں بنایا جا رہا ہے؟
یہ سچ ہے کہ اردو کا وطن ہندوستان ہے، لیکن اس کی روح کے ٹکڑے پاکستان میں بھی بستے ہیں۔ جب جب ہندوپاک کے رشتوں میں تلخی آتی ہے وہ سرحد سے بے نیازی کا دعویٰ کرنے والی زبان اردو کی محفلوں میں بھی کڑواہٹ گھُل جاتی ہے۔ ریختہ بھی اپنی محفلوں میں پڑوسی ادباء و شعراء کی کمی کو محسوس کرتا ہے۔
بہت کم عرصہ گزرا ہے جب اردو زبان کو گلیمر ملنا شروع ہوا۔ کالج اور یونیورسٹیوں کے کِھلتے چہروں پر اردو کی مسکان نظر آنے لگی۔ دہلی کے وسیع و کشادہ مقامات پر اردو کے جشن سجائے جانے لگے۔ جشن ادب، جشن بہار اور اردو اکیڈمی کی جشن وراثت جیسے پروگراموں نے اردو کو نئے پرستاروں سے واقف کرایا۔ سنجیو صراف ان سب کے پیچھے کی جدوجہد کے مُعترِف ہیں، مگر یہ بھی کہتے ہیں کہ
اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ ریختہ نے اردو کو سماجی ابلاغ کے سب سے طاقتوور میڈیا انٹرنیٹ پر پہنچایا ہے۔ مگر ریختہ میں اردوکے تمام سرمایے کو سمٹ جانے سے اردو کی روایتی دنیا اندیشوں سے بھی گِھر گئی ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں ریختہ کے ذریعہ اردوکے ساتھ دیگر زبانوں کو خلط ملط کرنے اور ویب سائٹ میں ڈاؤن لوڈ کی آزادی نہ ہونے سے اردو پر اجارہ داری کا خوف بھی طاری ہوتا جا رہا ہے۔