نیشنل کانفرنس کے سینیئر رہنما و رکن پارلیمان جسٹس آر حسنین مسعودی نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری ملک گیر احتجاج کو جائز اور برحق قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'سی اے اے کو این آر سی کے ساتھ جوڑ کر دیکھیں گے تو یہ دو دھار والی تلوار ہے، انہوں نے کہا کہ ملک کی عوام جاگ اٹھی ہے اور اپنے احتجاج کے ذریعے یہ بتانا چاہتی ہے کہ بس اب بہت ہوگیا'۔
حسنین مسعودی نے مرکزی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ 'اس حکومت کی پالیسی ہے کہ پہلے کسی چیز کو مسئلے کے طور پر پروجیکٹ کرو، اس کو مارکیٹ کرو اور پھر یہ کہو کہ صرف ہم میں ہی اس مسئلے کو حل کرنے کی طاقت ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'پارلیمان کے گزشتہ دو اجلاس کے دوران حکومت کی طرف سے جتنے بھی قوانین منظوری کے لیے لائے گئے ان میں سے بیشتر آئین ہند کے خلاف تھے'۔
جسٹس آر مسعودی نے کہا ’سی اے اے کے خلاف ملک کی عوام کا احتجاج جائز اور برحق ہے۔ حکومت کے پاس اس قانون کو واپس لینے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، یہ قانون غریب مخالف ہے، اس میں ہندو مسلم کی بات نہیں ہے'۔
انہوں نے سی اے اے کو دو دھار ی تلوار قرار دیتے ہوئے کہا 'آپ سی اے اے کو این آر سی کے ساتھ جوڑ کر دیکھیں گے تو یہ دو دھار والی تلوار ہے، این آر سی کے ذریعے جو لوگ باہر نکلیں گے ان میں سے کچھ کو شہریت ترمیمی قانون کا فائدہ دیں گے اور جنہیں اس قانون کا فائدہ نہیں ملے گا انہیں کیمپوں میں بھیج دیں گے، ہمیں سی اے اے اور این آر سی کو جوڑ کر دیکھنا چاہیے نہ کہ الگ الگ'۔
انھوں نے مزید کہا کہ 'سی اے اے اور مجوزہ این آر سی سے ملک کے غریب لوگ متاثر ہوں گے۔ آسام میں جو لوگ رہائش پزیر ہیں وہ گجرات، بہار اور باقی مقامات سے وہاں مزدوری کرنے گئے ہیں۔ وہ اپنی شہریت ظاہر کرنے کا ثبوت کہاں سے لائیں گے؟ دو تین کروڑ لوگ ایسے ہی ہیں جو کچی بستیوں میں رہتے ہیں'۔
حسنین مسعودی نے کہا کہ 'ملک کی عوام جاگ اٹھی ہے اور اپنے احتجاج کے ذریعے یہ بتانا چاہتی ہے کہ بس اب بہت ہوگیا'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'آپ دیکھیں کہ سی اے اے پر احتجاج کس نوعیت کا ہے، پانچ ریاستیں یہ کہتی ہے کہ ہم اس کو نافذ ہی نہیں کریں گے۔ لوگ جاگ اٹھے ہیں، لوگ کہتے ہیں بس اب بہت ہوگیا۔ یہ ملک ایک باغیچہ کی مانند ہے۔ یہاں ہر طرح کا پھول کھلنا چاہیے۔ سب کو روزگار ملنا چاہیے اور غریبوں کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کئے جانے چاہیے لیکن بدقسمتی سے موجودہ حکومت یہ کرنے کے بجائے لوگوں کو مختلف مسائل میں الجھا رہی ہے'۔
جسٹس آر مسعودی نے مجوزہ این آر سی پر بات کرتے ہوئے کہا 'حکومت کہتی ہے کہ ہم این آر سی کے ذریعے یہ دیکھیں گے کہ کون یہاں کا اصل شہری ہے اور کون نہیں ہے۔ جو لوگ این آر سی کے ذریعے باہر نکلیں گے ان کے دو حصے کئے جائیں گے۔ ایک حصے کو سی اے اے کا فائدہ دیں گے اور جس حصے کو سی اے اے کا فائدہ نہیں ملے گا ان کو کیمپوں میں رکھیں گے اور ان کو شہریت، جائیداد اور دیگر فوائد سے محروم کردیں گے۔ صرف پانچ مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو سی اے اے کا اہل قرار دیا گیا ہے'۔
حسنین مسعودی نے مرکزی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا 'یہ حکومت کا ایک سیاسی کھیل ہے وہ لوگوں کو ایک اور جذباتی چیز فروخت کرنا چاہتے تھے۔ جب لوگ طلاق ثلاثہ قانون سے خوش نہیں ہوئے تو انہوں نے شہریت ترمیمی قانون بنایا'۔