انہوں نے کہا کہ حالانکہ مجرم قرار دیے جانے اور سنائی گئی سزا کا جائزہ لینے کا حق ان کے پاس محفوظ ہے۔
مسٹر بھوشن نے کہا،’ میں اس حکم کا احترام کرتے ہوئے جرمانہ ادا کروں گا۔ میں نے جیسے قانونی سزا کو تسلیم کیا اور جرمانے کی ادائیگی کی ہے ویسے ہی اس معاملے میں بھی احترام سے جرمانہ ادا کروں گا‘۔
غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ نے مسٹر بھوشن کو توہین عدالت کا مجرم قرار دیا ہے اور پیر کو ان پر ایک روپیے کا جرمانہ ادا کرنے کی سزا دی ہے۔ ایسا نہ کرنے پر مسٹر بھوشن کو تین ماہ کی جیل اور تین سال تک وکالت کرنے پر پابندی عائد کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ 15 ستمبر تک انہیں جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔
مسٹر بھوشن نے کہا کہ ان سابق ججوں، وکلا، کارکنوں اور دوستوں کا شکرگزار ہوں جنہوں نے انہیں ان کے ایمان اور ضمیر کے تئیں مضبوط اور سچا رہنے کے لئے حوصلہ افزائی کی۔
انہوں نے کہا کہ بہت خوشی کی بات ہے کہ یہ معاملہ اظہار رائے کی آزادی کے لئے ایک تاریخی لمحہ بن گیا ہے اور لگتا ہے کہ اس سے کئی لوگوں کو سماج میں ناانصافی کے خلاف کھڑے ہونے اور بولنے کا حوصلہ ملے گا۔
مسٹر بھوشن نے کہا کہ وہ عدالت میں درج اپنے پہلے بیان میں کہہ چکے ہیں کہ وہ یہاں کسی بھی سزا کے لئے خوشی سے حاضر ہیں جو عدالت نے مقرر کیا ہے وہ انہیں ایک شہری کا سب سے بڑا فرض محسوس ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ سینیئر وکیل، عدلیہ کے خلاف ٹویٹ کرنے کے لیے قصوروار ٹھہرائے گئے تھے۔
جسٹس ارون مشرا، بی آر گوئی اور کرشن مراری کی بینچ نے 25 اگست کو پرشانت بھوشن کے اپنے ٹویٹس کے لیے معافی مانگنے سے منع کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔
بینچ نے پرشانت بھوشن کے ٹویٹ کے لیے معافی مانگنے سے منع کرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 'معافی مانگنے میں کیا غلط ہے؟ کیا یہ لفظ اتنا خراب ہے؟سماعت کے دوران بینچ نے پرشانت بھوشن کو ٹویٹ پر افسوس ظاہر نہ کرنے کے لیے اپنے مؤقف پر غور کرنے کے لیے 30 منٹ کا وقت بھی دیا تھا۔ تاہم وہ اپنے سابقہ بیان پر اٹل رہے۔ ان کے موقف کی ان کے وکیلوں نے پرزور حمایت کی۔