سال نو کی مبارک باد پیش کرنے کا انداز ہر خاص و عام کا ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہوتا ہے، اس ضمن میں جب ہم شعراء کی بات کرتے ہیں تو یقیناً یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ ان کے بیان کا طریقہ کیا ہوگا؟ کیونکہ شاعر اپنے شاعرانہ انداز سے حقیقت کو اپنی تصوراتی دنیا میں لے جاکر اس کے اندر نیا رنگ و آہنگ پیدا کر دیتا ہے کہ لوگ اس کے اشعار پر متوجہ ہوکر بے ساختہ واہ واہ کہہ اٹھتے ہیں۔
شاعر کا انداز سب سے انوکھا اس لیے بھی ہوتا ہے کہ ایک عام شخص کو اپنی بات کہنے کے لیے کئی صفحات درکار ہوتے ہیں لیکن شاعر محض چند اشعار اور مصرعوں میں بخوبی ان واقعات کو بیان کر دیتا ہے اور یہی اس کی سب بڑی خوبی اور کامیابی ہے۔
شاعر کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ جن واقعات کو بیان کرتا ہے بآسانی لوگ اسے سمجھ لیتے ہیں، فن شاعری ایک نہایت مشکل فن ہے جو فطری طور پر انسان میں ہوتی ہے۔
سال نو کی آمد سے جہاں لوگوں کے چہروں پر خوشیاں ہیں، وہیں گزرے سال کے کچھ تلخ واقعات ذہن و دماغ سے نکلنے کا نام نہیں لے رہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ' سال 2020 اپنے مختلف وجوہات کی وجہ سے تاریخ کے صفحات پر لکھا جائے گا اس میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے، دہلی فسادات رونما ہوئے اور پھر کورونا وبا کے سبب لاک ڈاؤن، یا پھر نئے زرعی قوانین کے نفوذ کے بعد کسانوں کا احتجاج جو اب تک جاری ہے۔ان باتوں نے انسانی ذہن پر جو نقش مرتب کیے ہیں یقینا وہ حیران کردینے والے ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے ایسوسیئٹ پروفیسر رحمان مصور کے مطابق جہاں اس سال کی کچھ بری یادیں ہیں وہیں کچھ اچھے پہلو بھی شامل ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ ہندی کے ایسوسیئیٹ پروفیسر رحمان مصور نے ای ٹی وی بھارت سے کہا کہ' 2020 نے کئی ایسی اہم یادیں چھوڑی ہیں جنہیں ہم کبھی فراموش نہپں کرسکتے، اپنےاحساسات کو انہوں نے شاعرانہ انداز میں پیش کیا ہے۔
'لمحہ لمحہ گزر گیا یہ سال
اس میں کیا کچھ تھا اور کیا نہیں تھا
آنے والے سے کچھ امیدیں ہیں
جانے والے سے بھی کوئی برا نہیں تھا'
وہیں انہوں نے ملک کی مختلف ریاستوں سے ہجرت کرنے والے یومیہ مزدور کے اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کے منظر کو بھی اپنی شاعری کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
عہد حاضر کی تصاویر بناتے ہوئے لوگ
بھوک سے مرتے ہوئے لوٹ کے کھاتے ہوئے لوگ
اگلی نسلوں کے لیے زخم اگاتے ہوئے لوگ
پھول کے شہر میں بارود بچھاتے ہوئے لوگ'
وہیں ایک دوسرے شاعر محمد سراج نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ' گزرا سال مختلف وجوہات کی وجہ سے پوری دنیا کے لیے پریشانیوں سے گھرا رہا، لوگ اتنے پریشان ہوئے کہ انہوں نے سال ختم ہونے کی دعائیں بھی مانگیں، لیکن پریشانیاں گذشتہ برس کے ساتھ بھی کہاں ختم ہونے والی تھی۔
نیے سال کا آغاز دہلی میں کرفیو سے ہوا ایسے میں گذشتہ برس کو الوداع کہنے اور نیے سال کا استقبال کرنے کے لیے اردو کے ادباء و شعراء نے اپنے اپنے انداز اپنا کلام پیش کیا۔
ہر سال ایک نیا سال آتا ہے
کچھ ارادے کچھ وعدے لیے
اور ہر سال ایک پرانا سال
دامن میں اپنے ناکامیاں، نامرادیاں ،بے ثباتیاں،
اپنوں کے غم بچھڑنے کا موسم، تنہائیاں راتوں کی
ارمانوں گھونٹ کر گلا زخموں سے سڑتی انسانیت کی لاش
سب بھر کر لے جاتا ہے اور آنے والے نئے مہمان سے
منہ چھپانے سرد ہواؤں کے جھکڑ سے خاموش نکل جاتا ہے
مہمان کے خیر مقدم کی ہنگامہ آرائیوں میں
نئے پرانے کے دھوکے میں برابر وقت مبتلا رکھتا ہے اور
ایک ہی سکہ بار بار اسپن ہوتا رہتا ہے
اور حضرت انسان ہر اچھال پر خوشیوں کے لیے رطب اللسان رہتا ہے
نئے سال کے مبارک ہونے پر
مگر ہر سال وہی شب و روز
وہی ماہ و سال
نظروں کا فریب
ایک نیا سال۔
مزید پڑھیں: یکم جنوری کو نیا سال کیوں مناتے ہیں؟
وہیں ایک دوسرے شاعر شاہد انور نے گزرے سال کو الواداع کہتے اور نئے سال پر مبارک پاد پیش کرتے ہوئے بہت ہی خوبصورت نظم پیش کی۔
ویڈیو دیکھیں۔۔۔۔