ETV Bharat / city

Karnataka Hijab Row Verdict: کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ پر مسلم دانشوروں کا ردعمل

پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے قومی جنرل سکریٹری انیس احمد نے کہا کہ کورٹ یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ ہمارے مذہب میں کیا ضروری ہے اور کیا نہیں، انہوں نے کہا کہ عدالت نے مسلم طالبہ کے ان جذبات کا خیال نہیں رکھا جو حجاب سے جڑے ہوئے تھے۔ بلکہ عدالت اس فیصلے پر پہنچ گئی کہ اسلام میں حجاب ضروری نہیں ہے۔ Karnataka High Court Upholds Government Order on Headscarves

مسلم دانشوروں کا ردعمل
مسلم دانشوروں کا ردعمل
author img

By

Published : Mar 16, 2022, 1:30 PM IST

Updated : Mar 17, 2022, 2:23 PM IST

ریاست کرناٹک کے متعدد کالجز اور یونیورسٹیز میں مسلم طالبات کو حجاب زیب تن کر کے کلاس روم میں عدم اجازت کا معاملہ گزشتہ کئی ہفتوں سے میڈیا کی سرخیوں اور زبان زد خاص و عام رہا۔

مسلم دانشوروں کا ردعمل

باحجاب مسلم طالبت کلاس روم میں جاکر اپنی پڑھائی کرنا چاہتی تھیں تاہم کالج انتظامیہ ڈریس کوڈ کا حوالے دے کر انہیں کلاس روم میں حاضری کی اجازت دینے سے گریز کررہے تھے۔

حجاب کا یہ معاملہ صرف ریاست کی سرحدوں تک محدودو نہ رہا بلکہ اس معاملہ میں جہاں ایک طرف مسلم دانشوران اور مسلم تنظیمیں حجاب کی حمایت میں آئیں تو وہیں دوسری جانب کرناٹک میں مختلف اضلاع کے کالجز کے احاطہ اور احاطہ کے باہر ہندو شدت پسند تنظیموں سے جڑے کارکنان حجاب کے خلاف مظاہرے کرتے نظر آئے۔

مختلف نیشب و فراز سے گزرتا ہوا یہ معاملہ ہائی کورٹ تک پہنچا۔ مسلم طالبات نے کورٹ میں حجاب پہننے اور دستور کے تحت ملی آزادی کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت میں اپنی درخواست دائر کی۔ وہیں انتظامیہ کی جانب سے کالجز کے ڈریس کوڈ کا حوالہ دیکر کلاس روم میں حجاب پہن کر نہ آنے کے سلسلے میں عرضی دائر کی۔

کئی دنوں تک فریقین کے وکلا نے عدالت میں اس معاملہ پر بحث کی، جس کے بعد عدالت نے اس معاملہ پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

15 مارچ کو کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حجاب مذہب اسلام کا لازمی جز نہیں ہے۔

کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلہ پر مسلم تنظیموں کے ذمہ داران، مسلم دانشوران اور مسلم خواتین نے اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔

ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے اس معاملہ پر چند مسلم تنظیموں کے ذمہ داران اور مسلم دانشورں سے اس معاملہ پر بات کی۔

اس معاملہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے قومی جنرل سکریٹری انیس احمد نے کہا کہ کورٹ یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ ہمارے مذہب میں کیا ضروری ہے اور کیا نہیں، انہوں نے کہا کہ عدالت نے مسلم طالبہ کے ان جذبات کا خیال نہیں رکھا جو حجاب سے جڑے ہوئے تھے بلکہ عدالت اس فیصلے پر پہنچ گئی کہ اسلام میں حجاب ضروری نہیں ہے.

انہوں نے کہا کہ عدالت اس عمل کو اسلام کا جزوی رکن ماننے سے انکار کر رہی ہے۔ جسے زیادہ تر مسلمان اسلام کے فہم کے مطابق درست اور ضروری سمجھتے ہیں۔سوال بنیادی طور پر مسلم خواتین کے اپنی پسند کے کپڑے پہننے کے بنیادی حق کے بارے میں تھا، اس بارے میں نہیں کہ اسلام میں کیا لازمی ہے اور کیا نہیں۔ ایک جمہوری ملک میں اپنے مذہبی متون کی تشریح کا حق صرف اسی مذہب کے ماننے والوں کو دیا جانا چاہیے۔Karnataka High Court Upholds Government Order on Headscarves

حجاب کا زعفرانی شال سے موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ عدالت سنگھ پریوار کی چال میں پھنس گئی ہے۔ یہ بات یقیناً تشویشناک ہے کہ اس فیصلے کو دائیں بازو کے گروہ مزید مسلم خواتین کو اپنی پسند کے کپڑے پہننے پر ہراساں کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔ پاپولر فرنٹ اس فیصلے کو مسترد کرتا ہے اور کمیونٹی رہنماؤں پر زور دیتا ہے کہ وہ اسے قانونی اور جمہوری طریقوں سے مشترکہ طور پر چیلنج کریں

اس معاملہ پرسابق رکن پارلیمان محمد ادیب کا کہنا تھا کہ اسلام میں ہدایت دی گئی ہے کہ خواتین کو اپنا جسم ڈھانپیں، خواہ وہ کسی بھی انداز میں ہو ۔

انہوں نے مزید کہا کہ بات حجاب کی نہیں ہے ،بلکہ مسلم بچیوں کی تعلیم سے آراستہ ہونے کی ہے۔ اس لیے جو لوگ اس پر اعتراض کر رہے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو مسلم بچیوں کی تعلیم سے پریشان ہے۔

محمد ادیب نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ آج سے ہی ہمیں چاہیے کہ ہم اس طرح کے تعلیمی ادارے قائم کریں جہاں پر بچے تعلیم کے ساتھ ساتھ با حجاب رہ کر اپنی تعلیم حاصل کر سکیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کو یہ نظر نہیں آیا کہ ایک مسلم طالبہ کو 15 سے بیس شر پسند چھیڑخانی کر رہے تھے کیا کسی مسلم بچی کو اس طرح چھیڑنا کیا قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے ۔

وہیں اس معاملہ پر اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) نے ایک بیان جاری کر کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ جس میں کلاس روم میں حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا گیا، انتہائی نامناسب اور پریشان کن ہے۔ اس فیصلہ میں تعلیم تک رسائی والے اہم مسئلہ کو نظر انداز کرتے ہوئے حجاب کے سلسلہ میں غلط معلومات پر مبنی ایک غیر ضروری طویل اقتباس شامل کیا گیا ہے۔ عدالت نے یونیفارم اور ڈریس کوڈ کے مخصوص ایک معنی وضع کیے ہیں جس میں ملک کے تنوع کو نظر انداز کر دیا ہے۔

ہائی کورٹ نے قرآن مجید کے ایک مخصوص انگریزی ترجمہ کو ترجیح دی اور باقی دیگر تراجیم اور تشریحات کو نظر انداز کردیا اور اس بنیاد پر کہا گیا کہ حجاب اسلام کا ضروری حصہ نہیں ہے۔ یہ طرز عمل ناقابل قبول ہے۔

ایس آئی او کا ماننا ہی کہ یہ مقدمہ”ضروری مذہبی عقائد“ والے معاملے میں موجود بنیادی خرابی کو ظاہر کرتا ہے۔ کیا عمل ضروری ہے اور کیا نہیں یہ طے کرنا کورٹ کی ذمہ داری نہیں ہونی چاہئے۔

یہ فیصلہ ”ہجوم کا راج“ والی خطرناک مثال قائم کرتا ہے۔ کورٹ نے حجاب اور زعفرانی شال کے درمیان غیر ضروری یکسانیت بتائی ہے، جو کہ ہنداتوا تنظیموں کے اس عمل کو جائز قرار دیتا ہے جس میں انہوں نے حجابی خواتین کے احتجاج کے جواب میں اختیار کیا۔ تاریخی اعتبار سے چلی آرہی حجاب کی روایت جسے مسلمان مذہب کا ضروری حصہ سمجھتے ہیں اس میں اور سیاسی فوائد کے لئے استعمال کیا جانے والے زعفرانی شال کے درمیان فرق کو کورٹ نے نظر انداز کردیا۔

اسکول تعلیم حاصل کرنے کامقام ہے، جس میں ہم آہنگی، رواداری، بقائے باہمی اور ہمدردی اس تعلیمی نظام کا اہم حصہ ہے۔ یونیفارم معاشی اور سماجی نابرابری کی بنیاد پر سماج کو تقسیم کرنے سے بچانے کے لئے ہیں۔ تاہم یہ یونیفارم تہذیبی روایات اور مذہبی عقائد کے سلسلہ میں متعصب نہیں ہوسکتے ہیں۔ سکھوں کی پگڑی، کریپان وغیرہ کا استعمال اسی بات کا اظہار ہے۔ حجاب کے مسئلہ کو بھی اسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

ہندوستانی مسلمان مستقل طور پر اپنی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے اور اپنے بچوں کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھانے کے لئے کوشاں ہیں،اس کا راست تعلق اس بھروسے پر ہے کہ کسی بھی عوامی ادارے میں مسلم اور غیر مسلم میں مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جائے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ حجاب اور یونیفارم ایک ساتھ ملک بھر کے ہزاروں اداروں میں صدیوں سے چلتے ہوئے آرہے ہیں اور اسے کی وجہ سے کسی بھی قسم کا نقصان نہیں ہوتا ہے۔ کلاس روم میں حجابی لڑکیوں کے داخلے کو ممنوع قرار دینا حوصلہ شکنی والا پیغام دیتا ہے کہ عوامی تعلیمی اداروں میں مذہب اور انفرادیت کا احترام نہیں کیا جائے گا۔

ای ٹی وی بھارت کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے مولانا نیاز احمد فاروقی نے بتایا کہ اس فیصلے کا اثر نہ صرف مسلم طالبہ پر پڑے گا بلکہ ملک پر بھی پڑے گا کیونکہ اگر ہم تعداد کی بات کریں تو لاکھوں بچیاں ایسی ہیں جو پردے میں رہ کر اسکول اور کالجز جس میں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم طالبہ کے لیے پردہ ضروری ہے جو ان کا مذہبی فریضہ ہے اگر اس فیصلے کے بعد انہیں اپنی تعلیم اور اپنے مذہب میں انتخابات کرنا پڑھتا ہے اور اس وجہ سے ان کی تعلیم چھوٹتی ہے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔

مولانا نیاز احمد فاروقی نے مزید کہا کہ آج ایک عدالت نے اس پر پابندی لگا دی کل کوئی عدالت اس پابندی کو ختم کر دے گی لیکن اس دوران جو نقصان ہوگا وہ ان لڑکیوں کا ہوگا جن کی تعلیم اس فیصلے سے متاثر ہوگی۔

اس کے علاوہ دنیا میں ایک یہ پیغام جائے گا کہ بھارت میں طالبہ کو سر کھولنے اور ڈھانکنے کی بھی آزادی نہیں ہے۔ تو پھر کیسی آزادی اور کیسی جمہوریت؟ ایک تو پہلے ہی بھارت میں اقلیتوں کے حقوق پامال ہونے کی خبریں بین الاقوامی سطح پر گردش کر رہی ہیں اور اس کے بعد یہ فیصلہ مزید بھارت کی شبیہ کو داغدار کرے گا۔

ریاست کرناٹک کے متعدد کالجز اور یونیورسٹیز میں مسلم طالبات کو حجاب زیب تن کر کے کلاس روم میں عدم اجازت کا معاملہ گزشتہ کئی ہفتوں سے میڈیا کی سرخیوں اور زبان زد خاص و عام رہا۔

مسلم دانشوروں کا ردعمل

باحجاب مسلم طالبت کلاس روم میں جاکر اپنی پڑھائی کرنا چاہتی تھیں تاہم کالج انتظامیہ ڈریس کوڈ کا حوالے دے کر انہیں کلاس روم میں حاضری کی اجازت دینے سے گریز کررہے تھے۔

حجاب کا یہ معاملہ صرف ریاست کی سرحدوں تک محدودو نہ رہا بلکہ اس معاملہ میں جہاں ایک طرف مسلم دانشوران اور مسلم تنظیمیں حجاب کی حمایت میں آئیں تو وہیں دوسری جانب کرناٹک میں مختلف اضلاع کے کالجز کے احاطہ اور احاطہ کے باہر ہندو شدت پسند تنظیموں سے جڑے کارکنان حجاب کے خلاف مظاہرے کرتے نظر آئے۔

مختلف نیشب و فراز سے گزرتا ہوا یہ معاملہ ہائی کورٹ تک پہنچا۔ مسلم طالبات نے کورٹ میں حجاب پہننے اور دستور کے تحت ملی آزادی کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت میں اپنی درخواست دائر کی۔ وہیں انتظامیہ کی جانب سے کالجز کے ڈریس کوڈ کا حوالہ دیکر کلاس روم میں حجاب پہن کر نہ آنے کے سلسلے میں عرضی دائر کی۔

کئی دنوں تک فریقین کے وکلا نے عدالت میں اس معاملہ پر بحث کی، جس کے بعد عدالت نے اس معاملہ پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

15 مارچ کو کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حجاب مذہب اسلام کا لازمی جز نہیں ہے۔

کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلہ پر مسلم تنظیموں کے ذمہ داران، مسلم دانشوران اور مسلم خواتین نے اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔

ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے اس معاملہ پر چند مسلم تنظیموں کے ذمہ داران اور مسلم دانشورں سے اس معاملہ پر بات کی۔

اس معاملہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے قومی جنرل سکریٹری انیس احمد نے کہا کہ کورٹ یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ ہمارے مذہب میں کیا ضروری ہے اور کیا نہیں، انہوں نے کہا کہ عدالت نے مسلم طالبہ کے ان جذبات کا خیال نہیں رکھا جو حجاب سے جڑے ہوئے تھے بلکہ عدالت اس فیصلے پر پہنچ گئی کہ اسلام میں حجاب ضروری نہیں ہے.

انہوں نے کہا کہ عدالت اس عمل کو اسلام کا جزوی رکن ماننے سے انکار کر رہی ہے۔ جسے زیادہ تر مسلمان اسلام کے فہم کے مطابق درست اور ضروری سمجھتے ہیں۔سوال بنیادی طور پر مسلم خواتین کے اپنی پسند کے کپڑے پہننے کے بنیادی حق کے بارے میں تھا، اس بارے میں نہیں کہ اسلام میں کیا لازمی ہے اور کیا نہیں۔ ایک جمہوری ملک میں اپنے مذہبی متون کی تشریح کا حق صرف اسی مذہب کے ماننے والوں کو دیا جانا چاہیے۔Karnataka High Court Upholds Government Order on Headscarves

حجاب کا زعفرانی شال سے موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ عدالت سنگھ پریوار کی چال میں پھنس گئی ہے۔ یہ بات یقیناً تشویشناک ہے کہ اس فیصلے کو دائیں بازو کے گروہ مزید مسلم خواتین کو اپنی پسند کے کپڑے پہننے پر ہراساں کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔ پاپولر فرنٹ اس فیصلے کو مسترد کرتا ہے اور کمیونٹی رہنماؤں پر زور دیتا ہے کہ وہ اسے قانونی اور جمہوری طریقوں سے مشترکہ طور پر چیلنج کریں

اس معاملہ پرسابق رکن پارلیمان محمد ادیب کا کہنا تھا کہ اسلام میں ہدایت دی گئی ہے کہ خواتین کو اپنا جسم ڈھانپیں، خواہ وہ کسی بھی انداز میں ہو ۔

انہوں نے مزید کہا کہ بات حجاب کی نہیں ہے ،بلکہ مسلم بچیوں کی تعلیم سے آراستہ ہونے کی ہے۔ اس لیے جو لوگ اس پر اعتراض کر رہے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو مسلم بچیوں کی تعلیم سے پریشان ہے۔

محمد ادیب نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ آج سے ہی ہمیں چاہیے کہ ہم اس طرح کے تعلیمی ادارے قائم کریں جہاں پر بچے تعلیم کے ساتھ ساتھ با حجاب رہ کر اپنی تعلیم حاصل کر سکیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کو یہ نظر نہیں آیا کہ ایک مسلم طالبہ کو 15 سے بیس شر پسند چھیڑخانی کر رہے تھے کیا کسی مسلم بچی کو اس طرح چھیڑنا کیا قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے ۔

وہیں اس معاملہ پر اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) نے ایک بیان جاری کر کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ جس میں کلاس روم میں حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا گیا، انتہائی نامناسب اور پریشان کن ہے۔ اس فیصلہ میں تعلیم تک رسائی والے اہم مسئلہ کو نظر انداز کرتے ہوئے حجاب کے سلسلہ میں غلط معلومات پر مبنی ایک غیر ضروری طویل اقتباس شامل کیا گیا ہے۔ عدالت نے یونیفارم اور ڈریس کوڈ کے مخصوص ایک معنی وضع کیے ہیں جس میں ملک کے تنوع کو نظر انداز کر دیا ہے۔

ہائی کورٹ نے قرآن مجید کے ایک مخصوص انگریزی ترجمہ کو ترجیح دی اور باقی دیگر تراجیم اور تشریحات کو نظر انداز کردیا اور اس بنیاد پر کہا گیا کہ حجاب اسلام کا ضروری حصہ نہیں ہے۔ یہ طرز عمل ناقابل قبول ہے۔

ایس آئی او کا ماننا ہی کہ یہ مقدمہ”ضروری مذہبی عقائد“ والے معاملے میں موجود بنیادی خرابی کو ظاہر کرتا ہے۔ کیا عمل ضروری ہے اور کیا نہیں یہ طے کرنا کورٹ کی ذمہ داری نہیں ہونی چاہئے۔

یہ فیصلہ ”ہجوم کا راج“ والی خطرناک مثال قائم کرتا ہے۔ کورٹ نے حجاب اور زعفرانی شال کے درمیان غیر ضروری یکسانیت بتائی ہے، جو کہ ہنداتوا تنظیموں کے اس عمل کو جائز قرار دیتا ہے جس میں انہوں نے حجابی خواتین کے احتجاج کے جواب میں اختیار کیا۔ تاریخی اعتبار سے چلی آرہی حجاب کی روایت جسے مسلمان مذہب کا ضروری حصہ سمجھتے ہیں اس میں اور سیاسی فوائد کے لئے استعمال کیا جانے والے زعفرانی شال کے درمیان فرق کو کورٹ نے نظر انداز کردیا۔

اسکول تعلیم حاصل کرنے کامقام ہے، جس میں ہم آہنگی، رواداری، بقائے باہمی اور ہمدردی اس تعلیمی نظام کا اہم حصہ ہے۔ یونیفارم معاشی اور سماجی نابرابری کی بنیاد پر سماج کو تقسیم کرنے سے بچانے کے لئے ہیں۔ تاہم یہ یونیفارم تہذیبی روایات اور مذہبی عقائد کے سلسلہ میں متعصب نہیں ہوسکتے ہیں۔ سکھوں کی پگڑی، کریپان وغیرہ کا استعمال اسی بات کا اظہار ہے۔ حجاب کے مسئلہ کو بھی اسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

ہندوستانی مسلمان مستقل طور پر اپنی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے اور اپنے بچوں کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھانے کے لئے کوشاں ہیں،اس کا راست تعلق اس بھروسے پر ہے کہ کسی بھی عوامی ادارے میں مسلم اور غیر مسلم میں مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جائے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ حجاب اور یونیفارم ایک ساتھ ملک بھر کے ہزاروں اداروں میں صدیوں سے چلتے ہوئے آرہے ہیں اور اسے کی وجہ سے کسی بھی قسم کا نقصان نہیں ہوتا ہے۔ کلاس روم میں حجابی لڑکیوں کے داخلے کو ممنوع قرار دینا حوصلہ شکنی والا پیغام دیتا ہے کہ عوامی تعلیمی اداروں میں مذہب اور انفرادیت کا احترام نہیں کیا جائے گا۔

ای ٹی وی بھارت کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے مولانا نیاز احمد فاروقی نے بتایا کہ اس فیصلے کا اثر نہ صرف مسلم طالبہ پر پڑے گا بلکہ ملک پر بھی پڑے گا کیونکہ اگر ہم تعداد کی بات کریں تو لاکھوں بچیاں ایسی ہیں جو پردے میں رہ کر اسکول اور کالجز جس میں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مسلم طالبہ کے لیے پردہ ضروری ہے جو ان کا مذہبی فریضہ ہے اگر اس فیصلے کے بعد انہیں اپنی تعلیم اور اپنے مذہب میں انتخابات کرنا پڑھتا ہے اور اس وجہ سے ان کی تعلیم چھوٹتی ہے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔

مولانا نیاز احمد فاروقی نے مزید کہا کہ آج ایک عدالت نے اس پر پابندی لگا دی کل کوئی عدالت اس پابندی کو ختم کر دے گی لیکن اس دوران جو نقصان ہوگا وہ ان لڑکیوں کا ہوگا جن کی تعلیم اس فیصلے سے متاثر ہوگی۔

اس کے علاوہ دنیا میں ایک یہ پیغام جائے گا کہ بھارت میں طالبہ کو سر کھولنے اور ڈھانکنے کی بھی آزادی نہیں ہے۔ تو پھر کیسی آزادی اور کیسی جمہوریت؟ ایک تو پہلے ہی بھارت میں اقلیتوں کے حقوق پامال ہونے کی خبریں بین الاقوامی سطح پر گردش کر رہی ہیں اور اس کے بعد یہ فیصلہ مزید بھارت کی شبیہ کو داغدار کرے گا۔

Last Updated : Mar 17, 2022, 2:23 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.