حقانی القاسمی کے زیر ادارت یک موضوعی مجلہ ’اندازِ بیاں‘ کے تازہ شمارے کے اجراء کی تقریب کی صدارت کرتے ہوئے آل انڈیا تنظیم علمائے حق کے صدر مولانا اعجاز عرفی قاسمی نے کہا کہ ان کی تحریروں میں غیر معمولی جاذبیت اور شیرینی پائی جاتی ہے اور انھیں پڑھنے والا یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ آسمان کی سربلندیوں سے لے کر زمین کی شادابیوں تک کا نظارہ کرکر رہا ہے، انھوں نے کہا کہ حقانی القاسمی بے پناہ خوبیوں اور امتیازات کے مالک ہیں اور ان کا یہ رسالہ ’اندازِ بیاں‘ ان کے انہی امتیازات کا نمونہ ہے جس کے پہلے شمارے میں خواتین کی خود نوشتوں کا جائزہ لیا گیا تھا اور دوسرے شمارے میں پولیس کے تخلیقی چہرے کو اجاگر کرنے کے بعد اِس شمارے میں میڈیکل ڈاکٹرز کی ادبی خدمات کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
انداز بیان کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے’حقانی القاسمی نے کہا کہ اندازِبیاں‘ مجلہ نہیں، میرا جنون ہے جسے میری بے روزگاری نے مہمیز کیا۔ اخبارِ نو سے علیحدگی نے مجھے عینی آپا تک پہنچایا تو راشٹریہ سہارا سے استعفیٰ نے ’اندازِ بیاں‘ کی تشکیل کا جذبہ پیدا کیا، اس کا پہلا شمارہ خواتین کی خودنوشتوں پر مشتمل تھا، دوسرا شمارہ پولیس کے تخلیق چہرے پر اور تازہ شمارے میں میڈیکل ڈاکٹروں کی ادبی خدمات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس میں ان لوگوں کی ادبی خدمات پر گفتگو کی گئی ہے جو پیشے سے ڈاکٹر ہونے کے باوجود اردو زبان کے شاعر، ادیب، مصنف اور ناول نگار ہیں اور تنقید و تحقیق کے میدانوں میں بھی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایسے موضوعات ہیں جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور پولیس، ڈاکٹر اور اس طرح کے پروفیشنل شعبے سے وابستہ ادیب،شاعر، ناول نگار اور کہانی کار کی خدمات کا اعتراف کرنا ادیبوں کی ذمہ داری ہے۔
اس موقع پر معروف صحافی عابد انور نے اپنے تاثرات میں کہا کہ حقانی القاسمی کے بارے میں کچھ بولنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، وہ اس وقت اردو دنیا کے معروف ترین ادیب و تنقید نگار ہیں۔ انھوں نے حقانی صاحب سے اپنے دیرینہ روابط کا خصوصی تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ حقانی القاسمی شروع سے ہی غیر معمولی تخلیقی صلاحیتوں کے حامل رہے ہیں اور دارالعلوم دیوبند کی طالب علمی کے دور میں ہی ان کی تحریری قابلیتوں کا شہرہ ہونے لگا تھا۔ وہاں کے طلبہ ان کی ادارت میں شائع ہونے والے جداری میگزین کو پڑھنے کے لیے بے قرار رہتے تھے۔
ڈاکٹر خان محمد آصف نے کہا کہ حقانی القاسمی کی تحریروں میں مخصوص قسم کی موسیقیت اور نغمگی پائی جاتی ہے جو قاری کو مسحور کردیتی ہے اور وہ سر دھننے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر نعمان قیصرنے حقانی القاسمی کی مختلف ادبی و تحقیقی تصانیف کا خصوصی حوالہ دیتے ہوئے ان کی تحریروں کی علمیت،ان کے اسلوب کے حسن و جمال اور طرزِ نگارش کی خوب صورتی کا تذکرہ کیا اور کہا کہ وہ ہمیشہ ادب میں نیا تجربہ کرنے کے قائل رہے ہیں،’اندازِ بیاں‘ بھی ان کا اسی قسم کا ایک نہایت کامیاب تجربہ ہے۔
اس پروگرام کی نظامت ٹی ایم ضیاء الحق نے بحسن و خوبی انجام دیتے ہوئے کہا کہ حقانی صاحب کو بچپن سے پڑھتا آرہا ہوں اور ان کی تحریروں میں غیر معمولی کشش، دلچسپ اور روانی ہے۔ اخیر میں عبارت پبلی کیشن کے سربراہ سلام خان نے تمام مہمانوں کا شکریہ اداکیا۔
اس موقع پر اردو ادب و صحافت سے وابستہ اہم شخصیات شریک تھیں جن میں مولانا فیروز اختر قاسمی، شاہدالاسلام، ماجد خان، اشرف بستوی، زبیر خان سعیدی، اشرف بستوی، اے این شبلی، منظر امام، نایاب حسن، عبدالباری قاسمی، محمد علم اللہ، شمس تبریز قاسمی، شاداب شمیم، امیر حمزہ، عمران عاکف خان، رضوان احمد اور احسن مہتاب خان وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اس پروگرام کا انعقاد عبارت پبلی کیشن کے زیر اہتمام ہوا تھا۔