گزشتہ دنوں جاری ایک ایڈوائزری کے بعد جموں و کشمیر میں فوج کی نقل و حرکت بڑھ گئی تھی، ایک گہما گہمی سا ماحول تھا، تمام سیاحوں اور امرناتھ یاترویوں کو تاریخ میں پہلی مرتبہ کشمیر خالی کرنے کا اعلان ہوا، جس سے وہاں کی عوام اور لیڈران میں تذبذب کی کیفیت دیکھی گئی تھی، لیکن جس تاریخی اعلان کے لیے یہ سب ہوا تھا وہ آج سب کے سامنے ہے۔
آج صبح 11 بجے راجیہ سبھا میں وزیر داخلہ کے اعلان کے بعد جموں و کشمیر اب ایک ریاست نہیں بلکہ مرکزی حکومت کے زیر انتظام ایک علاقہ ہوگا جہاں اسمبلی بھی ہوگی۔ لیکن لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کر دیا گیا اور مرکز کے زیر انتظام ایک علاقہ اعلان کر دیا۔
جس کے بعد پی ڈی پی اور دیگر پارٹیوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ بی جے پی کے مخالف رہنے والے وزیر اعلیٰ دہلی اروند کیجریوال نے بھی اس فیصلے کی تائید کی۔
وہیں سماجوادی اور کانگریس کے رہنماؤں نے اس فیصلے کی مخالفت کی۔ اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد نے کہا 'آج جمہوریت کا سر قلم کر دیا گیا'
حکومت ہند کا ماننا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اب حل ہو گیا، اب وہاں ترقیاتی کام تیزی سے ہوں گے، ساتھ ہی آزادی کے بعد سے جو سکیورٹی کے مسائل تھے وہ بھی حل ہوں گے۔
لیکن سوال اب بھی قائم ہے کہ جو کشمیر کے مسائل تھے وہ حل ہوںگے؟ اس فیصلے کو لیکر پارلیمان میں اب بھی بحث و مباحثہ جاری ہے۔ کیا یہ فیصلہ اب بھی کوئی نیا موڑ لے سکتا ہے؟ بہت سارے سوالات ابھی بھی اپنی جگہ قائم ہیں۔